"مراکش میں پابندئ نقاب پر ہنگانہ برپا : آزادیِ لباس یا سکیورٹی کا سوال؟”
مراکش میں تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر نقاب پہننے کی ممانعت کے حوالے سے ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے ۔ یہ صورت حال ایک سکول کے پرنسپل کی جانب سے چار طالبات کو نقاب کے ساتھ سکول میں داخل ہونے سے روک دینے کے بعد
پیدا ہوئی ہے۔
یہ واقعہ جمعرات کے روز مراکش شہر کے شمال میں قلعہ السراغنہ کے علاقے میں واقع ایک سکول میں پیش آیا ۔ اس فیصلے نے دو نظریات کے بیچ اختلاف چھیڑ دیا ہے ۔ جن میں لبرل شدت پسند پہلا طبقہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس پابندی کی تائید کرتا ہے جب کہ دوسرے گروہ نے اسے مذہب کے خلاف جنگ اور لباس کی آزادی چھیننے کے مترادف گردانا ہے۔
سوشل میڈیا پر مراکشی حلقوں کی جانب سے مختلف آرا سا منے آرہی ہیں ۔ بعض لوگوں نے اسے عورت کے لباس کے اختیار کی آزادی کے حق پر حملہ اور مذہبی ذہن رکھنے والی لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک گردانا ہے ۔ دوسری جانب بعض لبرل انتہا پسند لوگوں کے خیال یہ ہے کہ یہ ایک صحیح قدم ہے جس کا مقصد طلبہ اور اساتذہ کے مابین رابطے کے عمل کو سہل کرنا اور طالبات کی شناخت جاننے کا خیال رکھنا ہے۔
طالبات کے حق میں مختلف بلاگروں کا بلاگ ہے کہ یہ حرکت "نسل پرستی اور امتیاز” پر مبنی حرکت ہے ۔ انھوں نے استغاثہ سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے تا کہ طالبات کو اپنی پڑھائی برقرار رکھنے اور شرعی لباس میں آنے کی اجازت دی جائے ۔ بلاگروں کے مطابق یہ فیصلہ بلا جواز ہے جو طالبات کے حقوق میں لاپرواہی کی عکاسی ہے ۔ ہر فرد کو آزادی کے ساتھ اپنی شناخت کے اظہار کی اجازت دینے کی ضرورت ہے ۔ دوسری جانب ایک لبرل شدت پسند بلاگر نے پر نسپل کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سکول کی سلامتی برقرار رکھنے کے لیے تعلیمی ادارے کے داخلی قانون سے مطابقت رکھتا ہے۔ نقاب مراکش کی ثقافت کا حصہ نہیں ہے بالخصوص یہ پہننے والے کی پہچان کو چھپا دیتا ہے ۔
ایک اور نام نہاد اعتدال پسند جنونی نے لبرل بیانیہ کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ "اسکول کو ان قدیم علامتوں سے کافی دوری بنا کر ہمارے بچوں کے ذہنوں کو کھولنے پر توجہ دینی چاہیے اور معتدل مالکی مذہب کے ساتھ مراکش کے لوگوں کی اقدار اور دین کا خیال رکھنا چاہیے”۔