ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت کے لیے دھمکی آمیز اعلان:

ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے لیے ٹیرف کا اعلان: تجارتی تعلقات
ڈونلڈ ٹرمپ نے 47ویں امریکی صدر کے طور پر حلف لے لیا ہے۔ دنیا کی سب سے طاقتور کرسی سنبھالنے کے بعد، ٹرمپ نے بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے لیے ایک سخت موقف اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی عوام کو مالا مال کرنے کے لیے دوسرے ممالک پر بھاری ٹیرف اور ٹیکس لگائیں گے۔
بھارت پر بھاری ٹیرف کی دھمکی
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایک ایسی ایکسٹرنل ریونیو سروس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کے ذریعے دوسرے ممالک سے زیادہ سے زیادہ رقم امریکہ لائی جا سکے۔ بھارت سمیت ان تمام ممالک پر بھاری ٹیرف لگایا جائے گا جو امریکی مصنوعات پر زیادہ ٹیکس لگاتے ہیں۔
ٹرمپ نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت امریکی مصنوعات پر 100 سے 200 فیصد تک بھاری ٹیرف لگاتا ہے تو امریکہ بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک طرفہ معاملہ نہیں ہو سکتا اور بھارت جیسے ممالک کو امریکی مصنوعات پر ٹیرف کم کرنا ہوگا، ورنہ نتائج بھگتنا ہوں گے۔
امریکی درآمدات پر نئے ٹیکس اور بھارت کے لیے چیلنج
ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ:
چینی مصنوعات پر 60 فیصد ٹیرف لگائیں گے۔
علامتی درآمدات پر 10 فیصد ٹیکس عائد کریں گے۔
میکسیکو اور کینیڈا سے آنے والی مصنوعات پر 25 فیصد درآمدی سرچارج لگائیں گے۔
اس فیصلے سے نہ صرف عالمی تجارت متاثر ہوگی بلکہ امریکہ میں موجود بھارتی کمپنیوں کو بھی کاروبار کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
بھارت اور امریکہ کے تعلقات کا مستقبل
اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی میں بھارت کو ایک مضبوط تجارتی اتحادی قرار دیا ہے، لیکن اب ان کے سخت فیصلے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ بھارت سمیت ان تمام ممالک کو سبق سکھائیں گے جو امریکی مفادات کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں۔
روس اور یوکرین جنگ پر بھی نظر
ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کروانے کے بعد روس اور یوکرین کے تنازع کو حل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ٹرمپ کی ممکنہ ملاقات پر دنیا بھر کی نظریں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے لیے بھارت ایک بہترین مقام ہو سکتا ہے، جہاں دونوں رہنما مذاکرات کے لیے جمع ہو سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد بھارت اور امریکہ کے تجارتی تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ تعلقات کشیدہ بھی ہو سکتے ہیں، خاص طور پر اگر بھارت امریکی مصنوعات پر بھاری ٹیرف لگانے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ آنے والے دنوں میں دیکھنا ہوگا کہ دونوں ممالک کے رہنما ان مسائل کو کس طرح حل کرتے ہیں۔