آسام کی جس مسجد میں امام کا قتل ہوا کیا اس میں دوسرا امام آئے گا؟
.
.
دو دن سے مَیں اس سوچ میں ہوں کہ کیا کوئ امام اب اس مسجد میں امامت کرنے جائے گا؟
ایک قریبی باصلاحیت مفتی صاحب سے میں نے یہ دل کی بات کہی تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ایسا سوچ رہے ہیں؟ یہ ہماری برادری کے لوگ کیسے ہیں آپ کو اندازہ نہیں ہے کیا فقط دوچار دن کے بعد آپ معلوم کیجیے دیکھیے گا امامت کرنے کے لیے امام کی ایک لمبی لائن لگی ہوگی کہ ہم کو رکھ لو تو ہم کو رکھ لو۔
میں نے کہا ایسا کیوں کسی کو ڈر نہیں ہوگا ایسے محلے میں رہ کر؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مولانا لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ ایسا تھا اس لیے ویسا ہوا ہم ویسے تھوڑے ہیں ہم حکمت سے کام کریں گے سب کو سنبھال کر رکھیں گے ۔ اتنا سننا تھا کہ دل سے آواز آئ (آپ نے بالکل سچ کہا) آج اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ کمیٹی والے یا محلے کا کوئ فرد امام سے ذاتی دشمنی مول کر ان کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرکے اسے نکال دیتا ہے اور دوسرے امام کی جب بحالی ہونے والی ہوتی ہے تو اس کے سامنے بھی امام کی ہزار برائ بیان کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ غلطی ان کی تھی ہم لوگ تو بہت اچھے اخلاق والے ہیں امام صاحب پر تو ہم لوگ اپنی جان تک قربان کرینگے (مگر جان لیکر چھوڑتے ہیں) آپ رہیں آپ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا، اور بھولے امام صاحب اس چکنی چپڑی بات میں آکر یہی سوچتے ہیں کہ ہاں وہ ایسا تھا اس لیے ایسا ہوا اور ایک پل کے لیے بھی گمان نہیں کرتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے ہیں اور کیا ہمارے ساتھ یہ لوگ ایسا کرینگے کہ نہیں مگر فقط چند مہینے یا سال میں ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ امام کیسے تھے اور یہ لوگ کیسے ہیں مگر اب پچھتانے سے کیا ہوگا۔
پورے ہندوستان کی اکثر مسجدوں کا یہی معاملہ ہے کہ کمیٹی کی ہاں میں ہاں ملائیے تو ٹھیک ہے ورنہ انجام دیکھیے گا اور تقریر میں کمیٹی والوں کو یا محلے والوں کو زیادہ سدھارنے کی کوشش کیے تو بھی انجام دیکھیے گا کیا ہوگا۔
بس آخری گذارش وہی پرانی والی تمام علماء وائمہ سے کہ *امامت کو بطور پیشہ نہ اپنائیں بطور خدمت دین اپنائیں ذریعہ معاش کچھ اور بنائیں* ہاں مجھے معلوم ہے کہ اکثر علماء وائمہ مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اس لیے ذریعہ معاش جلدی سمجھ میں نہیں آتا، تو میری گذارش ہے کہ آپ ہمیشہ کوشش کرتے رہیں کہ جس دن اس لائق ہوجاؤنگااس دن معاش کا ذریعہ الگ بنالونگا، اور کوشش اس طرح کریں کہ امامت پہ رہتے ہوئے کچھ ہنر سیکھیں یا ممکن ہو تو اپنے اخراجات میں سے کچھ پیسہ بچا بچاکر رکھیں اور کوی مناسب تجارت شروع کریں ایسا نہیں کہ آپ کروڑ پتی ہونگے تب ہی تجارت شروع کرسکتے ہیں ورنہ نہیں بلکہ چھوٹے سے شروع کریں محنت اور لگن سے آگے بڑھتے جائیں ایک ڈیڑھ لاکھ سے بھی بہت سی تجارت شروع ہوسکتی ہے ، اگر مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو اہل دولت کی ہسٹری مطالعہ کریں اکثرکا کاروبار شروعات میں چھوٹا ہی تھا دھیرے دھیرے وہ چھاتے گئے اور بڑھتے گئے ،تجارت میں کتنی برکتیں ہیں یہ ہم بیان تو کرتے ہیں مگر اس برکت کو لینے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اس لیے میرے بھائیو، بزرگوں السعی منی والاتمام من اللہ کا تصور کرکے کچھ کرنے کی کوشش کریں، محنت کریں محنت اور لگن سے ہی کچھ حاصل ہوتا ہے ہاں کہیں کہیں ٹھیس لگے گی لیکن آپ بھی جانتے ہیں کہ ٹھیس لگنے کے بعد ہی تجربہ ہوتا ہے اور راہیں کھلتی ہیں ۔
*کاش کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات*
چلیے ایک آخری بات بتا کر تحریر مکمل کردوں، میں کیا ہوں اور جس بات کا مشورہ آپ کو دے رہاہوں اس پر خود بھی عمل کررہاہوں کہ نہیں کیونکہ اس زمانے میں سب سے سستا کام مشورہ ہی ہے ایک سے مانگو تو ہزار لوگ دینے کو تیار رہتے ہیں، اور سب سے مہنگی چیز مدد ہے ہزار سے مانگو تو کوئ ایک دیتاہے ۔
الحمدللہ میں بھی تقریبا سات آٹھ سال سے امامت کررہاہوں امامت پہ رہتے ہوئے میں نے ایک بہترین ہنر سیکھا(نام پوشیدہ رکھونگا)پھر کچھ پیسہ جمع کرکے ہنر کو استعمال کرنے کے لیے آلہ یا اوزار کہیے وہ خریدا اور اب امامت کے ساتھ ساتھ اپنے ہنر کا بھی استعمال کرکے پیسہ کما رہاہوں اور اس بات سے بے خوف ہوں کہ امامت چھوٹ جائے گی تو کیا کرونگااس لیے کہ ایک ایسا ہنر میرے پاس ہے کہ کہیں بھی رہ کر اس کے ذریعہ پیسہ کما سکتا ہوں، یہ سب میری محنت،لگن اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ممکن ہوا ہے ، اور بات رہی مشورہ کے ساتھ مدد کرنے کی تو اس بارے میں زیادہ نہیں لکھ سکتا کیونکہ نیکی اس طرح کرو کہ ایک ہاتھ سے دو تودوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو الحمداللہ جو کوئ بھی تجارت شروع کرنے کے لیے مجھ سے مدد مانگتا ہے میں اپنی حیثیت کے مطابق اس کی ضرور مدد کرتا ہوں اگر شمار کراؤں تو ایک اچھی فہرست بن سکتی ہے کہ کب میں نے کس کس کی مدد کی ہے مگر آج تک سوائے ذہن کے کہیں لکھ کر بھی نہیں رکھا ہے کہ کس کو کتنا دیا ہے کچھ تو ایسے ہیں جو کئ سال ہوگئے مگر ابھی تک واپس نہیں کیے ہیں صرف آج کل آج کل کرتے ہیں اور میں بھی اتنا امیر نہیں ہوں کہ دیکر بھول جاؤں، ہاں آپ قارئین کی دعا رہی اور پروردگار نے اس لائق بنایا تو ان شاءاللہ وہ بھی کرونگا ۔
.
.
.
.
.