اردو کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
.
Contents
اردو کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔.اردو ایک زندہ زبان ہے ۔ اس لئے کہ اس میں زندگی اور زندگی کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں اور اس لئے بھی کہ اردو زبان میں فرد کو زندہ رکھنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے. ہماری تہذیب اسی اردو زبان سے وابستہ ہے ۔ یہ میل جول اور ہم آہنگی کی زبان ہے۔اردو کے الفاظ ہمارے احساسات و جذبات کی بہت خوبصورت ترجمانی کرتے ہیں۔ اردو ہی ایک اکیلی زبان ہے جس کا تعلق دینی مدرسے اور خانقاہ سے ہے تو دوسری طرف یہ زبان فلم اور مشاعروں سے منسلک ہے۔اردو کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں : ’’اردو نام کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ کوئی دو سو سال سے ہماری زبان اس نام سے موسوم ہے۔ ابتدا لفظ اردو بصورت ترکیب اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ زبان اردوئے معلی کہلاتی تھی یعنی شاہی لشکر کی زباں۔ رفتہ رفتہ زبان کا لفظ خارج ہو گیا اور اردوئے معلی بچ رہا۔ کچھ عرصہ بعد ازراہ اختصار معلی بھی ساقط ہو گیا اورصرف اردو باقی رہ گیا۔ اردو کے چند قدیم نام یہ ہیں۔ ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دہلوی، زبان ہندوستان، لنگوا اندستان کا، ریختہبچے کی ابتدائ تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ زبان سیکھ جاتا ہے۔ اور باتیں بھی بڑی آسانی سے اسکی سمجھ میں آجاتی ہیں ۔
بچے کی ذھنی نشو نما صرف اور صرف مادری زبان ہی میں ممکن ہے ۔ موجودہ زمانے میں ہر فرد کی ترجیح انگریزی زبان اپنے بچوں کو سکھانے کی ہے۔ لیکن یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ انگریز بھی اپنے بچوں کو مادی زبان ہی میں تعلیم دلواتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو مادری زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں۔ ساتھ ہی ساتھ دیگر زبانوں کی بھی تعلیم دیں تاکہ دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہو۔تعلیمی اداروں میں اردو کے فروغ کیلئے ثقافتی سرگرمیوں اور طلبہ کے اخلاقی اقدار کے فروغ کیلئے سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی ٹیکنالوجی کے استعمال کے زریعہ اردو زبان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ ٹیلیویژن اور کمپیوٹر کو اردو کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے۔ اردو کا مولد اور مسکن ہندوستان ہے اردو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی آیینہ دار ہے۔ تحریک آزادی کی لڑائی اردو ہی میں لڑی گئی تھی ۔ لہذا اجداد کی وراثت کے تحفظ اور اپنی تشخص کی بقا کیلئے اردو سے ہماری وابستگی ضروری ہے…اردو زبان کی حمایت میں منظر بھوپالی نے کیا خوب لکھا ہے ۔۔۔۔۔
زبان ہند ہے اردو تو ماتھے کی شکن کیوں ہے
وطن میں بے وطن کیوں ہے
مری مظلوم اردو تیری سانسوں میں گھٹن کیوں ہے
تیرا لہجہ مہکتا ہے تو لفظوں میں تھکن کیوں ہے
اگر تو پھول ہے تو پھول میں اتنی چبھن کیوں ہے
وطن میں بے وطن کیوں ہےیہ نانکؔ کی یہ خسروؔ کی دیاشنکرؔ کی بولی ہے
یہ دیوالی یہ بیساکھی یہ عید الفطر ہولی ہے
مگر یہ دل کی دھڑکن آج کل دل کی جلن کیوں ہے
وطن میں بے وطن کیوں ہے
یہ نازوں کی پلی تھی میرؔ کے غالبؔ کے آنگن میں
جو سورج بن کے چمکی تھی کبھی محلوں کے دامن میں
وہ شہزادی زبانوں کی یہاں بے انجمن کیوں ہے✒ از _ سید علقمہ عرشیاردو ایک زندہ زبان ہے ۔ اس لئے کہ اس میں زندگی اور زندگی کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں اور اس لئے بھی کہ اردو زبان میں فرد کو زندہ رکھنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے. ہماری تہذیب اسی اردو زبان سے وابستہ ہے ۔ یہ میل جول اور ہم آہنگی کی زبان ہے۔اردو کے الفاظ ہمارے احساسات و جذبات کی بہت خوبصورت ترجمانی کرتے ہیں۔ اردو ہی ایک اکیلی زبان ہے جس کا تعلق دینی مدرسے اور خانقاہ سے ہے تو دوسری طرف یہ زبان فلم اور مشاعروں سے منسلک ہے۔اردو کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں : ’’اردو نام کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ کوئی دو سو سال سے ہماری زبان اس نام سے موسوم ہے۔ ابتدا لفظ اردو بصورت ترکیب اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ زبان اردوئے معلی کہلاتی تھی یعنی شاہی لشکر کی زباں۔ رفتہ رفتہ زبان کا لفظ خارج ہو گیا اور اردوئے معلی بچ رہا۔ کچھ عرصہ بعد ازراہ اختصار معلی بھی ساقط ہو گیا اورصرف اردو باقی رہ گیا۔ اردو کے چند قدیم نام یہ ہیں۔ ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دہلوی، زبان ہندوستان، لنگوا اندستان کا، ریختہبچے کی ابتدائ تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ زبان سیکھ جاتا ہے۔ اور باتیں بھی بڑی آسانی سے اسکی سمجھ میں آجاتی ہیں ۔
بچے کی ذھنی نشو نما صرف اور صرف مادری زبان ہی میں ممکن ہے ۔ موجودہ زمانے میں ہر فرد کی ترجیح انگریزی زبان اپنے بچوں کو سکھانے کی ہے۔ لیکن یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ انگریز بھی اپنے بچوں کو مادی زبان ہی میں تعلیم دلواتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو مادری زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں۔ ساتھ ہی ساتھ دیگر زبانوں کی بھی تعلیم دیں تاکہ دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہو۔.تعلیمی اداروں میں اردو کے فروغ کیلئے ثقافتی سرگرمیوں اور طلبہ کے اخلاقی اقدار کے فروغ کیلئے سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی ٹیکنالوجی کے استعمال کے زریعہ اردو زبان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ ٹیلیویژن اور کمپیوٹر کو اردو کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے۔ اردو کا مولد اور مسکن ہندوستان ہے اردو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی آیینہ دار ہے۔ تحریک آزادی کی لڑائی اردو ہی میں لڑی گئی تھی ۔ لہذا اجداد کی وراثت کے تحفظ اور اپنی تشخص کی بقا کیلئے اردو سے ہماری وابستگی ضروری ہے…اردو زبان کی حمایت میں منظر بھوپالی نے کیا خوب لکھا ہے ۔۔۔۔۔
زبان ہند ہے اردو تو ماتھے کی شکن کیوں ہے
وطن میں بے وطن کیوں ہے
مری مظلوم اردو تیری سانسوں میں گھٹن کیوں ہے
تیرا لہجہ مہکتا ہے تو لفظوں میں تھکن کیوں ہے
اگر تو پھول ہے تو پھول میں اتنی چبھن کیوں ہے
وطن میں بے وطن کیوں ہےیہ نانکؔ کی یہ خسروؔ کی دیاشنکرؔ کی بولی ہے
یہ دیوالی یہ بیساکھی یہ عید الفطر ہولی ہے
مگر یہ دل کی دھڑکن آج کل دل کی جلن کیوں ہے
وطن میں بے وطن کیوں ہے
یہ نازوں کی پلی تھی میرؔ کے غالبؔ کے آنگن میں
جو سورج بن کے چمکی تھی کبھی محلوں کے دامن میں
وہ شہزادی زبانوں کی یہاں بے انجمن کیوں ہے✒ از _ سید علقمہ عرشی