بچوں کو موبائل نہیں ماں کا پیار دیں!!
.
.
دور حاضر میں موبائل فون نے لوگوں کو اپنا اسیر بنالیا ہے۔ موبائل فون کے بغیر انسان کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک طرح سے موبائل فون نے اس قدر سہولت مہیا کر دی ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے استعمال اور کثرت استعمال پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ موبائل فون پر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ٹرینوں میں پہلے مسافروں کی ایک بڑی تعداد اخبارات ، رسالے اور کتابیں پڑھتے ہوئے دکھائی دیتی تھی لیکن آج کے دور میں زیادہ تر مسافر فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر اور انسٹاگرام وغیرہ دیکھتے ہوئے یا پھر گیمز کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ موبائل فون نے نہ صرف لوگوں سے سکون چرالیا ہے بلکہ بے مصرف استعمال سے وقت کی بربادی کا سبب بھی ثابت ہو رہا ہے۔ وقت ایک قیمتی نعمت ہے۔ ایسے افراد جو وقت کی قیمت نہیں سمجھتے، ان کے ہر کام میں تاخیر ہوتی ہے اور وہ مذہبی حقوق سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس قدر موبائل فون لوگوں کے ذہن پر حکومت کرتا ہے کہ رشتے ناطے سب ٹوٹ جاتے ہیں۔ حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے آنکھوں بینائی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ان سب باتوں کو جانتے ہوئے بھی لوگ لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر بچوں کو اس سے دور رہنے کی تاکید کی جائے تو وہ بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ہمارے نافرمان بچے ہیں بلکہ ہم خود ان کی پرورش اور تربیت اسی موبائل فون کے سائے میں کرتےہیں جس کا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔
گزشتہ دنوں کی بات ہے۔ بس میں ایک خاتون اپنے موبائل میں مصروف تھی اور اس کا بچہ بار بار موبائل پر ہاتھ رکھ رہا تھا۔ بچے کی اس حرکت سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اپنی ماں سے خواہش کر رہا ہے کہ وہ موبائل نہ دیکھے بلکہ اس کی باتوں کو سنے۔ ماں نے بچے کو ڈانٹا اور جب وہ رونے لگا تو انگلی کے اشاروں سے منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ بھی کیا۔ یہ دیکھ کر بچہ اور زور زور سے رونے لگا۔ ماں نے جب دیکھا کہ وہ چپ نہیں ہو رہا ہے تو اپنے بیگ سے دوسرا موبائل فون نکالا اور اس پر کارٹون لگا کر اسے دے دیا۔ بچے نے رونا بند کر دیا اور کارٹون دیکھنے لگا۔ ماں اور بچے کو موبائل فون میں مگن دیکھ کر مجھے پہلے کا دور یاد آیا کہ پہلے بچے ماں سے کسی بات پر ضد کرتے یا روتے تھے تو وہ قصہ اور کہانیاں سنایا کرتی تھیں، بچے بھی غور سے سنتے تھے اور اس سے سبق حاصل کرتے تھے لیکن آج بچوں کی تربیت ہی کچھ اس طرح ہو رہی ہے کہ جہاں بچوں نے پریشان کیا وہاں مائیں بچوں کو موبائل فون تھمادیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موبائل آج کے بیشتر بچوں کی عادت بن گئی ہے۔
موبائل نے تو بچوں کا بچپن ہی چھین لیا ہے۔ ماں ممتا سے بھری رہتی ہے لیکن موبائل نے اس کی ممتا کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ بچے انتظار میں رہتے ہیں کہ کب ماں ممتا بھرے انداز میں اسے پیار کرے اور وہ ماں سے لپٹ جائیں لیکن ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں۔ ممتا سے محروم بچوں کی نظریں اب ماں کے موبائل فون کی طرف رہنے لگی ہیں کہ کب ماں کو موبائل سے فرصت ملے اور وہ اپنی ممتا مجھ پر نچھاور کرے۔ کاش وہ موبائل فون سے انجان رہتی اور مجھے لارڈ پیار کرتی اور میرے لئے بھی اس کے پاس وقت ہوتا۔ اگر ماں آف لائن ہوتی تو مجھے کہانیاں سناتی نہ کہ ویڈیو گیم دے کر خود موبائل پر مصروف رہتی۔ بچوں کے بچپن کو بچانے کے لئے اور ان کی تربیت کیلئے یہ ضروری ہے کہ تمام مائیں آف لائن رہا کریں اور اپنی ممتا، اپنے پیار سے اپنے بچوں کی زندگی کو پینچ کر ان کی زندگی کو سنواریں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ اس موبائل فون کی وجہ سے بچوں کے ذہن اس طرح ہی نشو نما پائیں گے کہ ان میں محبت اور خلوص کا فقدان ہوگا۔