عتیق احمد کے بیٹے کا "انکاؤنٹر” کیوں "فرضی” لگتا ہے؟
.
.
آج اترپردیش پولیس کی اسپیشل ٹاسک فورس نے مشہور مافیا اور سیاستدان عتیق احمد کے بیٹے کو انکاؤنٹر میں قتل کردیا ہے، سنگھی میڈیا اس انکاؤنٹر پر جس طرح کا جشن منا رہا ہے اور یوگی خیمہ جس طرح لاش کی تقریب کررہا ہے وہ اترپردیش میں آئین و جمہوریت کی حقیقت بیان کرنے کے لیے کافی ہے، جیسے ہی اس ماورائے عدالت قتل کی خبر آئی تھی ہم نے اس کی مذمت کی تھی کیونکہ ہم پولیس کےذریعے ملزمین کے انکاؤنٹرس کے ہمیشہ خلاف رہےہیں یہ کسی بھی سوسائٹی اور ملک کے لیے اچھی بات نہیں ہے ایسی صورت میں مافیاﺅں اور قانونی محافظوں کےدرمیان کوئی امتیاز بھی باقی نہیں رہتاہے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کےذریعے ماورائے عدالت قتل کے ایسے اقدامات ازخود قانونی اور آئینی بالادستی پر بدنما داغ ہوتے ہیں اور بنیادی انصاف کے تقاضوں نیزانسانی حقوق کے بھی خلاف ہوتے ہیں ۔
جب ہم نے اس انکاﺅنٹر کےخلاف اپنا اختلافی نوٹ لکھا تھا تبھی کچھ لوگوں نے اس پر عجیب و غریب اعتراضات کیے تھے اور ابھی بھی کچھ لوگ ہڑبڑاہٹ یا نیشنل لیول پر جاری میڈیا ٹرائل کے اثرات میں آکر اترپردیش کی یوگی فورس کی ترجمانی کرنے کی کوشش کررہےہیں، یوگی عہد کے انکاؤنٹرس پر اس طرح کا اسٹینڈ لےکر وہ خود اپنے لیے بہت ہی غلط مثال قائم کررہےہیں جس کا انہیں مستقبل میں احساس ہوسکتاہے،
بہرکیف ہم ایسے اعتراضات پر توجہ نہیں دیتے ہوئے اترپردیش کی یوگی سرکار اور اس کی جانچ ایجنسیوں کے انکاؤنٹر کلچر پر تنقید کرتے رہیں گے، اور اس حوالے سے یوگی کے ٹھوک دو والے ٹرینڈ پر اپنی بات جاری رکھیں گے:
عتیق احمد کے نوجوان بیٹے کے انکاؤنٹر کے سلسلے میں ہم یوگی سرکار اور اس کی اسپیشل ٹاسک فورس سے کچھ سوالات کے جوابات چاہتےہیں جوکہ پولیس کی بیان کردہ کہانی کا تجزیہ کرنے پر سامنے آرہے ہیں:
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ اگر یہ انکاؤنٹر اچانک واقع ہوگیا اور مجبوری میں ہوگیا تو پھر انکاؤنٹر کے دو دن پہلے سے ہی میڈیا میں باضابطہ اسد احمد کا انکاؤنٹر ہوگا؟ اس عنوان سے سرخیاں کیونکر چل رہی تھیں؟؟؟
پولیس کےمطابق: "اسد عتیق احمد اور اس کےساتھی نے بائک پر سے بھاگتے ہوئے پولیس پر فائرنگ کی، جوابی فائرنگ میں عتیق اور اس کے ساتھی کی موت ہوئی، اور بعض میڈیا رپورٹس کےمطابق اسد عتیق احمد اور اس کے ساتھی کی تڑپ تڑپ کر بھی موت ہوئی "
اس کہانی پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ انکاؤنٹر کےبعد جو تصاویر پولیس نے جاری کی ہیں ان میں صاف طورپر یہ نظر آرہاہے کہ عتیق اور اس کے ساتھی کے ہاتھوں میں مرنے کےبعد بھی بندوق موجود ہے، عجیب بات ہے نا؟ دونوں کے جسم سے تڑپ تڑپ کر جان نکل گئی وہ موٹربائیک سے گر گئے لیکن ان کے ہاتھوں سے بندوق نہیں چھوٹی !
اسد عتیق احمد اور اس کا ساتھی ایسے تڑپ تڑپ کر مرے کہ بندوق تو بندوق اس کے سر سے ٹوپی تک نہیں اتری، ہے نا کمال کی بات؟!
پولیس کی طرف سے جاری کردہ تصاویر میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اسد احمد کے ساتھی نے موت کے ڈر سے اپنی پتلون میں ہی پیشاب کردیا تھا البتہ اپنی ہی پتلون میں پیشاب کردینے کی حد تک خوفزدہ ہوکر تڑپ تڑپ کر مرنے والے غلام رسول کے سر سے نہ ٹوپی اتری نہ ہاتھ سے بندوق چھوٹی !
*دونوں مقتولین کے داہنے ہاتھوں میں ہتھیار تھے جنہیں پولیس کےمطابق وہ چلا بھی رہے تھے سوال یہ ہےکہ جب یہ دونوں ہی ہتھیار چلا رہے تھے توپھر بائک کون چلا رہا تھا؟* 😄
پولیس کا کہنا ہے کہ: اس نے خود کی حفاظت میں گولی چلائی تھی، پوچھنا یہ تھا کہ یہ پولیس والے کہاں سے ٹریننگ لےکر آئے تھے کہ خودحفاظتی کےتحت سینے پر گولیاں داغ دیں؟
دو لوگ ایک بائک پر سوار تھے لیکن پولیس کی پوری فورس انہیں قابو نہیں کرپائی اور کسی بھی پولیس والے کو گولی نہیں لگی البتہ بیابان جیسی کسی کھلی جگہ پر دونوں ہی بائیک سوار بندوق بردار پولیس کی گولیاں کھا کر موت کے منہ میں جاگرے !
یہ کیسی بوگس اور بکواس اسکرپٹ لگ رہی ہے؟ کیا اس پر کوئی اندھا بھی یقین کرے گا؟ لیکن کتنے دوغلے پن کی بات ہےکہ جو گودی میڈیا یوگی کےذریعے وکاس دوبے کے انکاؤنٹر پر ماتم کررہاتھا وہی ہندوتوا میڈیا عتیق احمد کے بیٹے کے انکاﺅنٹر کا جشن منا رہا ہے !
جو لوگ آج یوگی جیسے انتہائی منتقم مزاج فاشسٹ کے زیرِسایہ جاری پولیس سسٹم کو ادنیٰ سا بھی جواز دینے کی کوشش کررہےہیں وہ کل خود اس کے شکار ہوسکتے ہیں ۔
یوگی راج میں کیے گئے بیشتر انکاؤنٹرس کا جب کبھی منصفانہ ٹرائل ہوگا سب کچھ سامنے آجائےگا، مافیاﺅں سے بڑھ کر مافیا کون تھے یہ معلوم ہوجائےگا،
ان سارے سوالات کی روشنی میں جہاں ہمیں انکاؤنٹر مشکوک لگتا ہے وہیں خود یوگی جیسے منتقم مزاج سیاستدان کی سربراہی میں انجام دی گئی کارروائیاں ازخود شبہات کو جنم دیتی ہیں، یوگی نے وزیراعلی ہوتے ہوئے کیا یہ نہیں کہا تھا کہ عتیق احمد کو مٹی میں ملادوں گا؟ کیا یہ کسی چیف منسٹر کی زبان ہوسکتی ہے یا مافیا کی جس کےپاس اچانک طاقت آگئی ہو؟ کیا ایسی زبان والے سیاستدان کی سربراہی میں انجام دیےگئے انکاؤنٹر کی شفافیت پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ *عدالتوں سے پرے یوگی کا پولیسیا نظامِ انکاؤنٹر کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے بصورتِ دیگر عدالتوں کو بند کرکے ان کی جگہ یوگی کی ایسی مورت نصب کردینی چاہیے جس میں یوگی کی آنکھ پر پٹی باندھ کر ہاتھوں میں بندوق تھما دینی چاہیے اور نیچے لکھا ہو، ” جان بچائیے کہ آپ بندوق تنتر میں ہیں ” "بندوق میو جیئتے” یہ اترپردیش ہے یہاں ملزمین و مجرمین کے فیصلے عدالتوں میں نہیں بلکہ سڑکوں پر گاڑیاں پلٹ کر کیے جاتے ہیں،* فرق صرف اتنا ہے کہ ٹھاکر کے "بندوق تنتر ” کا شکار ہونے والا مجرم اگر برہمن یا دلت ہوگا تو ہندو سماج اور گودی میڈیا بھی ماتم میں شریک ہوتاہے تاہم اگر ماخوذ و ملزم مسلم نام والا ہوگا تو ہندوتوا بریگیڈ موت پر جشن منائےگا اور لاشوں پر بھی اپنی نفرتی پیاس کی تسکین کرےگا _
.
.