"ارتداد ملت کیلئے ایک بد نما داغ”
.
.
ہندوستانی مسلم معاشرہ موجودہ وقت میں ارتداد و دین
بیزاری کی سرخ آندھیوں کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ ایک لہر ہے جو اس وقت ہمارے ملک کے مسلمانوں کو بہا لے جانا چاہتی ہے ۔ فتنوں کے اس دور میں نئے نئے فتنے وجود پا رہے ہیں ۔ جیسے جیسے ذریعہ ابلاغ بڑھتے جا رہے ہیں اتنی ہی تیزی سے فتنے بھی بڑھتے جا رہے ہیں. ان ہی فتنوں میں ایک فتنہ ارتداد ہے جو بہت تیزی سے سر اٹھا رہا ہے۔
اس فتنے کے زہریلی اثرات مسلم معاشرے میں تیزی سے پھیلتےجا رہے ہیں ۔ رات دن مسلم خواتین کو مرتد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ارتداد امت کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ ضروری ہے کہ ارتداد کی تھوڑی وضاحت کر دی جائے کہ یہ ارتداد ہے کیا؟
ارتداد ایک سنگین جرم ہے ۔
ایمان لے آنے کے بعد اس سے پھر جانا اور مرتد ہوجانا بہت ہی خطرناک جرم ہے۔ اور اگر اسی حالت کفر میں موت ہوگئی تو ہمیشہ ہمیش کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ایسے لوگ بروز قیامت حوض کوثر سے محروم کر دیئے جائیں گے اور ان کی شفاعت بھی نہیں کی جائے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے لوگوں کی ہرگز ہرگز اللہ تعالی مغفرت نہیں کرے گا کیونکہ اس نے اپنی کتاب میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ "جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا اور کفر کی حالت میں مر جائے گا اس کے سارے اعمال برباد ہوجائیں گے اور وہ جہنم میں ہوگا اور وہیں ہمیشہ رہے گا” (سورہ بقرہ) دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ "جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا اور اسی میں بڑھتے چلے گئے ان کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی۔ گمراہی اور خسران و نقصان ہی ان کا مقدر ہو گا (سورہ آل عمران)
ہندوستانی مسلم معاشرے کا دین سے تعلق نہایت کمزور ہو گیا ہے دین سے پھر جانا اور صراط مستقیم کو چھوڑ کر کسی اور ڈگر کو راہ گذر بنا لینا عام بات ہو گئی ہے۔ پچھلے چند ماہ سے اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ تعلیم یافتہ نوجوان طبقے میں ارتداد کی لہر دوڑ نے اور دین اسلام سے بیزاری کے متعدد واقعات دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔عصری تعلیم حاصل کرنے والی نوجوان مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی رچانے کے واقعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں ۔ یہ واقعات انتہائی تکلیف دہ ہیں، اور ملت کے لیے بدنما داغ بھی۔
مجموعی طور پر پر ارتداد کی اس لہر میں میں بہت بڑی تعداد بہ چکی ہے جن میں اکثریت عصری اداروں کی پیداوار ہے۔ اور یہ صرف کسی ایک شہر یا قصبے کی بات نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے مختلف حصوں سے یہ خبریں آ رہی ہیں۔ اپنوں کا دین اسلام سے پھر جانا، اور مرتد ہوجانا، بڑے دکھ کی بات ہے۔ اس وقت سارے عالم میں دین اسلام کو مٹانے اور اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسلام دشمن طاقتیں متحد ہو کر پوری طرح زور آزما رہی ہیں کہ اسلام کو کس طرح صفحہ ہستی سے مٹایا جائے یا کم ازکم مسلمانوں کی شناخت اور ان کی تہذیب تو ضرور چھین لی جائے۔ اور یہ ارتداد کے واقعات کوئی اتفاقی واقعات نہیں ہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی اور پوری تیاری و سازش کے ساتھ مسلمان لڑکیوں کو ارتداد کا شکار بنایا جا رہا ہے ۔
جسکے پیچھے کئی فرقہ پرست تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔ باضابطہ ان کی فنڈنگ کی جا رہی ہے ۔ ان میں بہت سی ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو مسلم نام اور دین کے عنوان سے اس کار بد کو انجام دے رہی ہیں ۔
اغیار کی یہ کو ششیں بھی اتنی ہی پرانی ہیں جتنا اسلام۔
اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ پڑھنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام دشمن عناصر نے شرو سے ہی اس طرح کی کوششیں کی ہیں
ابو جہل، ابو لہب، امیہ اس کے نمائندے تھے
جنہوں نے اپنی تمام تر توجیہات انہیں مقاصد میں صرف کردیں کہ کو ئ ایک مسلمان اسلام سے پھر جائے لیکن تاریخ شہادت پیش کرتی ہیکہ کسی ایک نے بھی اپنے ایمان سے سودا نہیں کیا ۔ استقلال و استقامت کے نمونے دور نبوی سے لیکر ماضی قریب تک بلکہ ہر زمانے کے اندر دیکھنے اور سننے کو ملتے رہے ہیں ۔
اب یہاں سوال بنتا ہیکہ آخر ہمارے دور میں ہی لوگ اتنی آسانی سے کیوں مرتد ہو رہے ہیں؟
اسلام کی مقناطیسیت اور شان و شوکت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی کل تھی ۔
غور کرنے اور حالات کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہیکہ اسکے مختلف اسباب ہیں جیسے دینی تعلیم سے دوری، سوشل میڈیا کا بے جا استعمال، والدین کی جانب سے لاپرواہی اور بے توجہی وغیرہ وغیرہ: لیکن دینی تعلیم سے دوری سر فہرست اور قابل غور ہیں ۔دینی تعلیم سے دوری اور عقائد سے ناوقفیت ایک مومن کیلئے سب سے بڑی کمزوری ہے ۔اسلام نے دینی تعلیم کی اہمیت کو واضح کیا ہے ۔اور بقدر ضرورت دینی تعلیم کے حصول کو فرض قرار دیا ہے ۔
یعنی ایک مسلمان مرد عورت کیلئے کم از کم اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے کہ جس سے اللہ کی وحدانیت
رسول کی رسالت، موت و حیات، جنت و جہنم، جزا وسزا، حلال و حرام، فرض اور سنت کیا ہے اور اس پر عمل کس طرح کیا جاتا ہے ۔ یقیناً جس کے پاس دینی علوم ہوگا، خدا کا خوف ہوگا، دنیا کی فانی زندگی کی حقیقت معلوم ہوگی، آخرت کی لا محدود زندگی اور بروز محشر جواب دہی کا احساس ہوگا، وہ کبھی بھی ارتداد کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔
جہاں تک بات ہے مخلوط تعلیم کی. بلا شبہ مخلوط تعلیمی نظام بھی بہت سی خرابیوں کو جنم دیتا ہے، مرد و زن کا اختلاط ہی ایک بہت بڑا فتنہ ہے ۔
آج کے دور میں ایک مسلمان کیلئے صرف یہ دیکھنا کافی نہیں ہیکہ اسکول بہت اچھا ہے، اور تعلیم اچھی ہوتی ہے، بلکہ اس اسکول کی عمومی فضا بھی دیکھنا ضروری ہے ۔
ذھنی بگاڑ کی شروعات زیادہ تر اسکول و کالج کے آزادانہ ماحول سے ہوتی ہے ۔ اسکول کے اساتذہ و ذمہ داران خود آزادانہ ماحول کے پروردہ ہوتے ہیں۔ اسلیۓ جدید ثقافت اور ترقی یافتہ تمدن کے نام پر اسی طرح کے ماحول کو باقی رکھنا بلکہ اسے فروغ دینا چاھتے ہیں، لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان بے تکلفی اور آپسی دوستی کو خاموش طریقے سے بڑھاوا دیتے ہیں ۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسلام عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع کر تا ہے ۔ بلکہ وہ تو روز اول ہی سے تعلیم کا علم اٹھاۓ ہوئے ہے ۔اس کا نعرہ ہی اقراء ہے ۔ قرآن کی شروعات ہی اقراء سے ہوئی ہے. اسلام اور وحی کا آغاز اقراء سے ہوا ہے ۔
زمانہء نبوت میں حضرات صحابیات مختلف علوم و فنون میں مہارت رکھتی تھیں ۔ اور آپ صل اللہ علیہ وسلم نے با ضابطہ ان کی تعلیم و تربیت کیلئے دنوں کو مخصوص کر دیا تھا جس میں حضرات صحابیات کو باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی ۔
وہ تعلیم میں کبھی بھی مردوں سے پیچھے نہیں رہیں بلکہ ایسی دسترس حاصل کی کہ تاریخ ان پر نازاں ہے ۔
مگر مخلوط تعلیمی نظام مغرب کی دین ہے جس نے نفع کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے ۔ شہنشاہ ظرافت اکبر الہ آبادی نے کہا تھا۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نا ہوتا
افسوس کے فرعون کو کالج کی نا سوجھی
مسلم دانشوروں کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے ۔ مگر دین و ایمان کی سلامتی اور عزت و عصمت کے ساتھ۔ اس کیلئے ایسے اسکول اور کالج قائم کیۓ جائیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کا مکمل لحاظ ہو اور ان کی عزت و عصمت بھی محفوظ رہے ۔
دینی تربیت کے بغیر بچوں کی صحیح رہنمائی ممکن نہیں ہے ۔ جدید تعلیم سے صرف مادی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف انڈیا مسٹر ایم وی رمنا نے اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ” جدید تعلیم صرف مادی فوائد سے مربوط ہے۔ اس کے ذریعے سے طلبہ کے کردار اور اخلاقی اقدار کی کی تشکیل نہیں کی جاسکتی۔ حالانکہ حقیقی تعلیم وہ ہے جس میں کسی بھی فرد کی شخصیت کا مکمل فروغ ہو یہی تعلیم صبر اور اور احترام کا پابند بناتی ہے۔ اس لیے تعلیمی