اگر مسلمان مخالف ہوتے تو مغلیہ دور میں ایک بھی ہندو نہ بچتا
.
.
مسلمانوں کے خلاف ملک میں پھیلائی جارہی نفرت اور مغلیہ دور حکومت کے تعلق سے برادران وطن کی منفی ذہن سازی کی مخالفت کرتے ہوئے کرناٹک کے ایک سابق جج نے آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمان ہندووس کے خلاف ہوتے تو مغلیہ دور میں ایک بھی ہندو نہ بچتا۔ ریٹائر ڈ ڈسٹرکٹ حج وسنت ملاساوالاگی نے یہ باتیں ایک سیمینار میں کہیں جس کا عنوان تھا کہ کیا ہم نے آئین کے ہدف کو حاصل کر لیا ہے؟“ ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہندو برادران وطن میں پیدا کی جارہی نفرت کے پس منظر میں انہوں نے کہا کہ مغلوں کے دور حکومت میں اگر مسلمان ہندوؤں کے خلاف ہو گئے ہوتے تو ہندوستان میں ایک بھی ہندو نہ بچتا .. وہ چاہتے تو تمام ہندووں کو قتل کر سکتے تھے۔“ انہوں نے غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ سیکڑوں سال ملک پر حکمرانی کے باوجود مسلمان اقلیت میں کیوں ہیں؟ ان کا یہ بیان فوری طور پر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔ پروگرام کا انعقاد جمعرات کو دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر راشٹریہ سوہار دوید یکا نامی تنظیم نے کیا تھا جس کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے اسے فروغ دیتا ہے۔
اس موقع پر سابق جج نے کہا کہ ”جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ کیا اور وہ کیا، انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی کے ۷۰۰ رسالہ تاریخ کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا کہتی ہے۔ انہوں نے جودھا بائی کے تعلق سے نشاندہی کی اور کہا کہ مغل حکمراں اکبر کی بیوی ہندو ہی رہی، اسے تبدیلی مذہب کر کے مسلمان نہیں ہونا پڑا۔ اکبر نے اپنے آنگن میں کرشنا کا مندر بنا رکھا تھا جسے لوگ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مزید آگے بڑھتے ہوئے وسنت ملاسا والا گی نے کہا کہ رام اور کرشن جیسے ہندو دیوی دیوتا محض کہانیوں کے کردار ہیں، وہ تاریخی شخصیات نہیں ہیں۔“ انہوں نے کہا کہ اصل تاریخی شخصیت تو حکمراں اشوک تھے۔
مندروں پر قبضہ کر کے انہیں مسجد بنا دینے کے الزام پر بھی سابق ڈسٹرکٹ جج نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ مندروں کو مسجد میں تبدیل کیا گیا مگر مندروں کی تعمیر سے قبل حکمراں اشوک نے٤۴ ہزار بودھ وہار تعمیر کروائے تھے، وہ کہاں گئے؟ وقت کے ساتھ یہ سب کچھ ہو گیا۔
اگر مسلمان مخالف ہوتے تو مغلیہ دور میں …. انہوں نے سوال کیا کہ ” کیا اسے اب بڑا موضوع بنایا جا سکتا ہے؟ آئین کے طے کردہ اہداف کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ آئین نے جو ہدف طے کیا ہے وہ بہت ہی صاف اور واضح ہیں مگر ان اہداف کو حاصل کرنے میں سٹم نا کام ہے اس لئے اس کے تعلق سے شکوک وشبہات پیدا کئے جارہے ہیں۔ اس کو ختم کرنے کیلئے نئی نسل کو الرٹ ہونا پڑے گا۔” انہوں نے کہا کہ ”ہمیں ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حال پر نظر رکھنی چاہئے اور اس کے لحاظ سے سوچنا چاہئے ۔ ہمیں اپنی آواز صحیح ڈھنگ سے بلند کرنی ہوگی۔“ اس موقع پر دوسرے سابق حج ارالی ناگراج نے ملک میں دل بدل کی سیاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے وقت ہی امیدوار سے یہ حلف نامہ کیا جانا چاہئے کہ وہ جیتنے کے بعد پارٹی تبدیل نہیں کرے گا۔ اس ضمن میں قانون سازی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” آزادی سے قبل عوام میں حب وطن اعلیٰ درجے کا تھا مگر اب خود غرضی نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ سابق حج کا ویڈیوسوشل میڈیا پر تیزی سے شیئر کیا جارہا ہے۔