سنگھ پریوار کو مسلمانوں میں پس ماندہ ذاتوں کی تلاش
.
.
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اسلام سے پہلے دنیا میں جو مذاہب موجود تھے ، ان میں انسانوں کے ایک گروہ کو نسلی بنیاد پر دوسرے انسانوں پر افضل قرار دیا جاتا تھا ، ایرانی آریہ نسل سے تعلق رکھتے تھے اور وہ اپنے آپ کو تمام انسانوں کا مخدوم اور پیدائشی طور پر حکمرانی کا اہل تصور کرتے تھے ، اس کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان کے بارے میں یہ مبالغہ آمیز تصور بھی پایا جاتا تھاکہ ان کی رگوں میں خدا کا خون دوڑتا ہے ، یہودیوں اور عیسائیوں کا تصور تھا کہ وہ چوںکہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے ہیں ؛ اس لیے انھیں پوری انسانیت پر فضیلت حاصل ہے اور وہ خدا کے قریبی لوگ ہیں ، آریوں ہی کا قافلہ ایران سے ہندوستان آیا اور رفتہ رفتہ طبقاتی تقسیم او رگہری ہوتی گئی ؛ چنانچہ یہاں انہوں نے وہ قانون مرتب کیا ، جسے ’’ منو ‘‘ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ، اس میں انسانیت کو مستقل طور پر چار حصوں میں تقسیم کردیا گیا ، ایک گروہ کے بارے میں کہا گیا کہ یہ خدا کے سر سے پیدا کئے گئے ہیں ، یہ پیدائشی طور پر مقدس اور امتیازی شان کے حامل ہیں ، عام لوگوں کا کام ہے کہ ان کی بارگاہ میں نذر و نیاز پیش کریں اور ان کو راضی رکھیں ، اسی میں لوگوں کی نجات ہے ، بادشاہوں کو بھی اس گروہ کے تابع رکھا گیا ، یہ گروہ برہمنوں کا ہے ، دوسرا گروہ ویش کا ہے ،جو خدا کے بازوؤں سے پیدا کئے گئے ہیں ، ان کا کام کاروبارِ حکومت کو چلانا ہے ، تیسرا گروہ چھتریوں کا ہے ، جو اُن کے عقیدہ کے مطابق خدا کی رانوں سے پیدا کئے گئے ہیں ، محنت و مزدوری کرنا ان کی ڈیوٹی ہے ، چوتھا گروہ شودر کاہے ، جن کے بارے میں ان کا تصور ہے کہ یہ خدا کے پاؤں سے پیدا کئے گئے ہیں ، ان تینوں گروہوں کا بنیادی کام برہمنوں کا خدمت کرنا اور ان کو خوش رکھنا ہے ؛ لیکن خود ان تینوں طبقوں کے درمیان درجات و مراتب میں بڑا تفاوت ہے ، شودر تو جانوروں سے بھی بدتر ہیں ، ان پر علم کا دروازہ بند ہے ، ان کا سایہ بھی اس لائق نہیں ہے کہ اونچی ذات والوں پر پڑ سکے ، اونچی ذات والوں کے مندروں کے دروازے ان پر بند ہیں ، عام طور پر دڑاور ہندوستان کے اصل باشندے تھے ، وہ بیچارے اس حقیر سلوک کے مستحق قرار دیئے گئے اور انہیں شمالی ہند ؛ بلکہ پورے ملک سے کھدیڑ کر جنوبی ہند کی آخری ساحلی پٹی میں مقیم ہونا پڑا ، جو اُس زمانہ میں شہری سہولتوں اور تہذیب وثقافت کی کرنوں سے دور کا علاقہ تھا ۔
ہندوستان کے لوگوں میں صدیوں اس تصور کی تبلیغ کی گئی او ریہ بات اس طرح ذہن میں راسخ کردی گئی کہ نیچ سمجھے جانے والے لوگ خود بھی اس حیثیت پر قانع ہوگئے ، اس سوچ کو مزید پختہ کرنے اور مظلوم شودروں کو احتجاج سے روکنے کے لئے برہمنوں نے آواگون کا تصور دیا ، یعنی انسان اپنے اعمال کے اعتبار سے دنیا میں بار بار جنم لیتا رہتا ہے ، اس طرح شودروں کو بتایا گیا کہ تمہارا شودر ہونا بلا سبب نہیں ہے ، یہ پچھلے جنم کے اعمال کا نتیجہ ہے ، اگر اس جنم میں تمہارے اعمال اچھے رہے اور تم نے برہمنوں کی خدمت کا حق ادا کیا ، تو تم اگلا جنم ایک برہمن کی صورت میں لے سکتے ہو ، یہ وہ تصور تھا جس نے نیچ سمجھے جانے والے لوگوں کو مطمئن کردیا ، — اس غیر انسانی تصور کو چوںکہ مذہبی رنگ دے دیا گیا ، اس لیے اس کی جڑیں اتنی گہری ہوگئیں کہ متعدد اصلاحی کوششوں کے باوجود آج پڑھے لکھے لوگوں میں بھی یہ سوچ موجود ہے ، اور عملاً برہمنوں اور اونچی ذات والوں کی فرمانروائی کاسکہ چل رہا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے دنیا کو جو انقلابی تصورات دیئے ، ان میں ایک وحدتِ انسانیت کا تصور بھی ہے ، قرآن نے صاف اعلان کردیا کہ تمام انسان ایک ہی شخص کی اولاد ہیں ،انسانوں کا کوئی گروہ نہ خدا کی اولاد ہے اور نہ پیدائشی طور پر خدا کو زیادہ محبوب ہے ، خدا کے نزدیک نسلی بنیادوں پر کوئی اونچا اور نیچا نہیں ہے؛ بلکہ انسان کے باعزت ہونے کا معیار اس کا عمل اور برتاؤ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے تاریخی خطبہ میں اس بات کا بہت واضح طور پر اعلان فرمادیا کہ کسی عربی کو غیر عربی پر عرب ہونے کی بنا پر اور کسی سفید فام کو سیاہ فام پر چمڑے کی رنگت کی بنا پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ؛ بلکہ خدا کے نزدیک انسان تقویٰ کی وجہ سے با عزت شمار ہوگا :لا فضل لعربي علی العجمي ولا لأبیض علی الأسود، إن أ کرمکم عند اللّٰه أتقاکم (مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۳۵۳۶)
اس فکر کو راسخ کرنے کے لیے قرآن نے دو بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے : ایک یہ کہ انسان کا مقام و مرتبہ اس کے عمل و کسب سے متعلق ہے ، اتفاقات سے متعلق نہیں ہے ، یعنی کسی انسان کا کسی خاندان میں پیدا ہو جانا ، کسی خاص زبان میں اپنے ما فی ضمیر کو ادا کرنا اور کسی علاقہ میں اس کی رہائش کا ہونا ، یہ سب اتفاقی اُمور ہیں ، ان کی وجہ سے کوئی انسان بلند و برتر نہیں ہوتا ، علم انسان اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے ، اخلاقی رویہ کو انسان اپنے نفس کی تربیت کے ذریعہ درست کرتا ہے ، انسان جو عمل کرتا ہے ، اس میں انسان کی محنت کو دخل ہوتا ہے ، گویا یہ اکتسابات ہیں ، یہ محنت و کاوش کے ذریعہ حاصل کی جانے والی خوبیاں ہیں ؛ اس لیے ان ہی سے انسان کی فضیلت و سر بلندی متعلق ہے ؛ اسی لیے حدیث نبوی ﷺ میں فضائل سے متعلق تمام ارشادات ’ علم و عمل اور اخلاق ‘ کے گرد گھومتے ہیں۔
دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ خدا اور بندوں کے درمیان اس کے سوا کوئی واسطہ حائل نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ قدسی صفت پیغمبروں اور رسولوں کے ذریعہ اللہ کا پیغام انسانیت تک پہنچا ہے ، ہر شخص براہ راست خدا سے مانگ سکتا ہے ، ہر شخص کو براہ راست خدا کی عبادت کرنا ہے ، ہر شخص کے لیے خدا کی طرف سے آنے والے علم کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، اس تصور سے انسانی مساوات کی فکر کو تقویت پہنچتی ہے ، جن لوگوں نے انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کیا تھا ، انھوں نے انسانوں کے ایک گروہ کو خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ بنادیا تھا اور تصور دیا تھا کہ ہر عام و خاص کی خدا تک رسائی نہیں ہو سکتی ، اسی لیے مسلمانوں میں پڑوسی قوموں سے تعصب کی وجہ سے کبھی کبھی علاقائی ، لسانی اور نسلی تعصب کی آگ بھڑک اُٹھی ہے ؛ لیکن چوںکہ یہ اس اُمت کے بنیادی عقیدہ اور اساسی فکر کے خلاف ہے ؛ اس لیے اس کو مسلمانوں میں کبھی بھی دوام و استمرار حاصل نہیں ہوا ، اور نہ اُمت کے دین دار طبقہ نے کبھی اسے قبول کیا ۔
سچائی کو جتنا چھپایا جائے، وہ کھل کر ہی رہتی ہے، اس وقت ملک اسی صورت حال سے گزر رہا ہے، بہار کے وزیر تعلیم پروفیسر چندر شیکھر نے رام چرت مانس کے بارے میں باضابطہ پریس میں بیان دیا کہ اس کتاب میں دلتوں اور عورتوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا ہے، اور ان کو پٹائی کے لائق قرار دیا گیا ہے، پھر اس کے بعد کئی لیڈروں اور تعلیم یافتہ ہندوؤں نے ان کی تائید کی اور کہا کہ رامائن اور منو سمرتی اس لائق کتابیں ہیں کہ ان کو جلا دیا جائے، پھر سماج وادی پارٹی اترپردیش کے رکن سوامی پرساد موریہ نے بھی اس بات کو پوری قوت کے ساتھ دہرایا، اس کے بعد آپ پارٹی کے لیڈر راجندر پال گوتم نے بھی رام چرت مانس اور منوسمرتی کو دلت اور عورت مخالف قرار دیا ہے، پروفیسر چندر شیکھر نے پریس کے سامنے رام چرت مانس کی عبارت پڑھی، ایک ایک لفظ کا ترجمہ کیا اور برہمن لابی اس کے ترجمے میں جو ہیر پھیر کررہی تھی، ان کا جھوٹ اچھی طرح واضح کیا، اس طرح سچائی پوری طرح بے غبار ہوگئی، اس وقت ملک میں یہ بحث گرم ہے اور کئی جگہ برہمن مخالف احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں، بے چارے آر ایس ایس اور بی جے پی والوں کی حالت بہت قابل رحم ہے، اگر رام چرت مانس کا دفاع کریں تو دلت اور اوبی سی کے ووٹ نکلنے کا خطرہ ہے، اور اس پر تنقید کو قبول کریں تو خود اپنے موقف کے خلاف ہے۔
ضمیر فروش میڈیا نے بہت کوشش کی کہ کسی بہانے اس میں اسلام اور مسلمانوں کو مدمقابل بنا کر کھڑا کر دیا جائے؛ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ان کے دعویٰ کی نا معقولیت اور مسلمانوں کے اس معاملہ میں الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے یہ کوششیں ناکام اور نامراد ہو گئیں، ایک طرف برادران وطن میں ذات پات کی یہ چنگاری سلگ رہی ہے اور شعلہ بننے کو تیار ہے، دوسری طرف بی جے پی خود مسلمانوں میں پسماندہ ذات اور اونچی ذات وغیرہ کا راگ الاپ رہی ہے، اور چاہ رہی ہے کہ اس تصور کو مسلمانوں میں اُبھارا جائےاور اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے، ہو سکتا ہے کہ سیاسی فائدہ کے لئے کچھ مسلمانوں کو پسماندہ طبقہ قرار دے کر انہیں فائدہ پہنچا دیا جائے؛ لیکن ظاہر ہے کہ یہ مسلمانوں کے لئے مفید سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔
عرصہ سے ہندوستان میں مسلمانوں کا مطالبہ رہا ہے کہ انھیں تعلیم ، ملازمت اور سیاسی نمائندگی میں ریزرویشن دیا جائے ؛ تاکہ وہ موجودہ پسماندگی سے باہر آسکیں اور یقیناً یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ؛ اس لیے کہ یہ پسماندگی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی تنگ نظری او رنا انصافی کا نتیجہ ہے ، اور حکومت کو خود اپنی نا انصافی کی تلافی کرنی چاہیے ، اس ریزرویشن کی بنیاد معاشی پچھڑاپن ہونا چاہیے ، نہ کہ ذات پات ، اس لیے اسلام میں قبائل وخاندان اونچ اور نیچ کو ظاہر نہیں کرتے ؛ بلکہ خاندان تعارف و پہچان کے لیے ہے ،جیسے انسان الگ الگ صورتوں سے پہچانا جاتا ہے ،الگ الگ ناموں سے اس کی شناخت ہوتی ہے ، مختلف مقامات اور شہروں کی نسبت سے لوگوں کی سکونت کاعلم ہوتا ہے ، اسی طرح اپنے مورثِ اعلیٰ کی نسبت سے بھی انسان کی شناخت ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے :اِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَ کَرٍ وَاُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۔ (حجرات: ۱۳)
مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اولاً تو یہ تقسیم خلافِ واقعہ ہے ، ہندو سماج سے متاثر ہونے کے باوجود آج بھی مسلمان معاشرہ میں ذات پات کی جڑیں اتنی گہری نہیں ہیں ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو محض خاندان کی نسبت سے حقیر نہیں سمجھتا ، ایسا نہیں ہے کہ بعض مسجدیں سادات و شیوخ کے لیے مخصوص ہوں اور دوسروں کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہو ، ایسا نہیں کہ کوئی انصاری اور نداف امام ہو تو مغل او رپٹھان ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کردیں ، ایسا نہیں ہے کہ خانقاہوں میں اصلاح و مشیخت کے منصب پر صرف سادات و شیوخ ہی فائز ہیں ، گو ہندوستان کے بعض علاقوں میں شادی بیاہ کے مسئلہ میں خاندانی نسبت کو مبالغہ آمیز حد تک پیش نظر رکھا جاتا ہے ؛ لیکن آج بھی اکثر شہروں میں ایسی تقسیم نہیں ہے ، مختلف خاندانوں میں باہم شادی بیاہ کے تعلقات ہیں ، اور جہاں ذات کو زیادہ ملحوظ رکھا جاتا ہے ، وہاں بھی یہ ایک روایتی اور رواجی عمل ہے ، ورنہ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ اپنے خاندان سے باہر دوسرے مسلمانوں سے شادی درست نہیں ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شادی میں خاندانی نسبت کا لحاظ رکھنے کے سلسلہ میں جو غلو پایا جاتا ہے ، وہ بہت سے مفاسد کا باعث ہے ، اوراسے دُور کرنے کی ضرورت ہے ۔
دوسرے جب کوئی عمل مسلسل ہونے لگتا ہے ، تو وہ عقیدہ بن جاتا ہے ، یعنی شروع میںتو اس عمل کے پیچھے کوئی اعتقاد اور گہری فکر کار فرما نہیں ہوتی ؛ لیکن بتدریج وہ انسانی فکر کا ایک حصہ بن جاتا ہے ؛ اس لیے اگر ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن دیاگیا ، تو یہ ابتداء ًتو ایک سیاسی عمل ہوگا ؛ لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کے دل بھی تقسیم ہو جائیں گے ، ان کی سوچ بھی بدل جائے گی اورمسلمانوں میں بھی برادرانِ وطن کی طرح ذات پات کی گہری تقسیم خدا نخواستہ پیدا ہو جائے گی ، اب غور کیجئے ، جو دین اس طبقاتی تصور کو مٹانے کے لیے آیا اور جس نے انسانی وحدت کا تصور دیا ، اسی دین کی حامل اُمت اپنے آپ کو اونچے نیچے طبقات میں تقسیم کرلے ، اس سے زیادہ بد قسمتی کی کوئی بات ہو سکتی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا :
اللہ نے تم سے جاہلیت کے تکبر اور آباء و اجداد پر فخر کرنے کو ختم کردیا ہے ، اب یا تو وہ مومن ہے جوتقویٰ رکھتا ہو ، یا وہ بدکار ہے جوخدا کی نافرمانی کرتا ہے ، تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں ، اور آدم مٹی سے بنائے گئے ہیں ۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۵۱۱۶)
ایک اور روایت میں ہے :
تم لوگ اے اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن کر رہو ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے ، نہ اسے رُسوا کرتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے ، انسان کے شریر ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ۔ (مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۶۴)
اس لیے اس تصور کو قبول کرنا اسلام کی بنیادی فکر کے مغائر ہے ۔
خود جن مسلمان خاندانوں کو حکومت پست طبقہ قرار دیتی ہے اور اس بنیاد پر ان کو کچھ رعایت دینا چاہتی ہے ، وہ سوچیں کہ کیا ان کو اپنے لیے یہ بات پسند ہے کہ انھیں کمتر اور رذیل تصور کیا جائے اور اس بنیاد پر کچھ ملازمتوں کی بھیک دیدی جائے ؟ پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آئندہ نسلوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا ، برادرانِ وطن میں جو لوگ دلت کہلاتے ہیں ، ان کے اندر اپنی کمتری کا احساس اس درجہ راسخ ہو چکا ہے کہ نکالے نہیں نکلتا ، اگر آج مسلمانوں کے کچھ خاندانوں کو پسماندہ ذات قرار دے دیا گیا ، تو پچاس سو سال کے بعد ان کی آنے والی نسلیں بھی ایسے ہی احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جائیں گی ؛ اس لیے مسلمانوں کو متفقہ طور پر اس بات کا مطالبہ کرنا چاہیے کہ انھیں معاشی بنیاد پر ریزرویشن دیا جائے ، نہ کہ ذات پات کی بنیاد پر ۔
اللہ اس پلیٹفارم کو مذید مضبوط اور مستحکم بنائے