اردو ہندی کا باہمی رشتہ

اردو ہندی کا باہمی رشتہ

.

 

 

 

 

.

اس غلط فہمی کو اب دور ہونا چاہئے کہ اردو ، عربی فارسی کا ظل ثانی ہے یا اسکی اپنی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ۔

 

 

 

اردو ہند آریائ زبان ہے اور ہندی سے اسکا اٹوٹ رشتہ ہے۔ اردو زبان کسی بھی دوسری زبان کا نقش ثانی کیسے ہو سکتی ہے ۔اردو زبان ہندوؤں اور مسلمانوں کے صدیوں کے میل جول کے نتیجے میں وجود میں آئی _ اس زبان کے وجود میں آنے کے بعد اس نے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا۔ محبت اور بھائ چارے کے رشتوں کو مضبوط کیا۔ اس زبان نے ہندوستان کو ایک خوبصورت ملی جلی تہذیب سے آشنا کرایا۔ اردو نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی تہذیب کو آپس میں ملا کر ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی جو مشترکہ تہذیب کہلائ اور یہی "مشترکہ تہذیب "اردو اور ہندوستان کی خاص پہچان ہے،جس نے صدیوں تک ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑے رکھا اور آج بھی ہندوستان میں یکجہتی، آپسی یگانگت ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، بھائ چارہ اور آپسی میل جول کے جو نعرے لگائے جاتے ہیں، وہ اردو ہی کی دین ہے ۔ اردو عام ہندوستانی زبان ہے ۔ یہی وہ زبان ہے ، جس میں بھگتوں، سنتوں، اور صوفیوں نے توحید کے ترانے گائے ، بھائ چارے کا درس دیا ، روحانیت اور سچی انسانیت کے پیغام سے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کے دلوں کو آباد کیا۔ اس طرح یہ زبان کسی ایک مذہب یا فرقے کی زبان نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ہر ہندوستانی کی زبان ہے ۔

 

 

 

 

اردو اور ہندی کی بنیاد ایک ہے اس لئے ہزاروں دوریاں پیدا کرنے کے باوجود ان کے آپسی رشتوں کو ختم نہیں کیا جا سکا ، بلکہ آج بھی اردو اور ہندی میں بہت سے الفاظ اور آوازیں مشترک ہیں، افعال ایک ہیں ۔ محاورے ایک ہیں ۔ اردو کی تقریبا 36 آوازوں میں صرف چھے ایسی ہیں، جو عربی فارسی سے لی گئی ہیں، بقیہ سب کی آوازیں اردو ہندی میں مشترک ہیں ۔

 

 

 

 

اسی طرح اردو نے فارسی ، عربی، الفاظ کو ہندی لفظوں کے ساتھ ملا کر سینکڑوں مرکب بناۓ جو ہندی اردو دونوں میں یکساں رائج ہیں ۔ جیسے ڈاک خانہ، عجائب گھر، گلاب جامن ، سبزی منڈی، گھرداماد، تھانیدار، گھڑی سازکا استعمال کون نہیں کرتا۔ اس میں اردو اور ہندی کی کون سی تفریق ہو سکتی ہے ۔ یہ سب دونوں زبانوں میں یکساں طور پر رچے بسے ہوۓ ہیں۔
آپ کو یہ جان کر شاید اور بھی حیرت ہوگی کہ شروع کا ادبی سرمایہ بھی دونوں زبانوں کا مشترک ہے ۔ امیر خسرو کی پہیلیاں، رانی کیتکی کی کہانی ، بیتال پچیسی وغیرہ اردو اور ہندی کا مشترک سرمایہ ہیں۔
کہاوتوں اور تلمیحوں میں بھی دونوں زبانوں میں بھت اشتراک ہے مثلا مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال ، لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا ، گھر کی مرغی دال برابر، یہ منہ اور مسور کی دال ، گھی کے چراغ جلانا ، آنکھوں کے اندھے نام نین سکھ ، تمام کہاوتیں اردو اور ہندی والے بلا روک ٹوک استعمال کرتے ہیں ۔ ان شہادتوں سے یہ بات مکمل واضح ہو گئ کے اردو اور ہندی دونوں سگی بہنیں ہیں ۔ ان دونوں زبانوں کا کا آپسی رشتہ بہت گہرا ہے اور یہ دونوں زبانیں مل جل کر اس ملک کی ترقی، خوشحالی، محبت اور آپسی بھائ چارے کی فضاء کو پروان چڑھا رہی ہیں اور ہندوستان کو ایک لڑی میں پرو ۓ ہوۓ ہے ۔

 

 

 

 

 

اردو کو کسی ایک مذہب یا فرقے سے وابستہ کرنا، یا اس پر بدیسی ہونے کا الزام لگانا ، یا غیر سمجھنا کہاں کا انصاف ہے ؟ یہ سچی جمہوریت کے بھی خلاف ہے اور سچی ہندوستانیت کے بھی ۔جو لوگ ان دونوں زبانوں میں دوری پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم سب کا فرض ہے کہ انہیں کامیاب نا ہونے دیں ۔
قومی زبان کی حیثیت سے ہندی کا احترام کریں اور دونوں زبانوں کے لئے یکساں طرقی کے مواقع فراہم کریں ۔

.

سید علقمہ عرشی
متعلم دارالعلوم دیوبند

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top