کیا محفوظ اور با اختیار ہیں ہماری بہنیں اور بیٹیاں؟

کیا محفوظ اور با اختیار ہیں ہماری بہنیں اور بیٹیاں؟

.

 

 

.

 

 

لڑکیاں کسی بھی عمر، مذہب اور خاندان سے تعلق رکھتی ہوں وہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ ان کی عصمت و عزت کے ساتھ صحت کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے، جب تک ہر شخص میں یہ جذبہ پروان نہیں چڑھے گا نہ ہماری کم سن بچیاں محفوظ رہیں گی نہ شادی شدہ بہنیں اور بیٹیاں۔ شاید یہ جذبہ پروان نہیں چڑھ سکا اس لئے بیٹیاں اور بیٹیوں کے ساتھ ان کے والدین اور سر پرست پریشانیوں میں ہیں۔ اخباری خبروں کے مطابق ممبئی جیسے شہر میں جس کو عورتوں اور بچیوں کے معاملے میں دوسرے شہر کے مقابلے نسبتا محفوظ شہر تسلیم کیا جاتا ہے اوسطا ۳ سے ٤ لڑکیاں جن کی عمر ۱۵ر سے ۷ ارسال کے درمیان ہوتی ہیں روزانہ غائب ہو جاتی ہیں اور سب کی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی جاتی۔ ان بچیوں میں بعض کو شادی کا جھانسہ دے کر غائب کیا جاتا ہے اور بعض محبت و ہوس کے افسوسناک مضمرات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ منگل پربھات لوڈھا جو مہاراشٹر اسمبلی میں عروس البلاد ممبئی کے ترقی یافتہ سمجھے جانے والے علاقے ملبارہل کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس وقت عورتوں اور بچوں کی فلاح کے محکمے کے وزیر ہیں یہ بیان دے کر چونکا دیا ہے کہ ریاست مہاراشٹر سے ۵۰۰ شادی شدہ لڑکیاں غائب ہیں۔ اس کا. مطلب ہے کہ صرف وہ بچیاں یا بیٹیاں ہی غائب نہیں ہورہی ہیں ۔ جن کی عمر کم ہے وہ لڑکیاں بھی غائب ہو رہی ہیں جو نسبتا با وقار ہیں اور اپنا بھلا برا خوب سمجھتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ معاملات جذباتی فیصلوں کے علاوہ ورغلانے ، بہکانے اور اغوا کئے جانے کا بھی نتیجہ ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کا ضمیر نہیں ہے جو انسان کے بچوں کو اغوا کر کے روپیہ کماتے اور ان کا جنسی استحصال کر کے لذت حاصل کرتے ہیں۔

 

 

اسی دوران ایک اسٹڈی میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہندوستان میں لنکس یعنی پھیپھڑوں کے کینسر کا قہر سب سے زیادہ عورتوں پر ٹوٹ رہا ہے۔ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ کینسر خاص طور سے پھیپھڑوں کا کینسر ان لوگوں کو ہوتا ہے جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں یا جن کی عمر زیادہ ہوتی ہے مگر میدانتا اسپتال کی ایک اسٹڈی میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پھیپھڑوں کا کینسر سیگریٹ نوشی نہ کرنے اور کم عمر کے لوگوں میں بھی بڑھ رہا ہے۔ اسٹڈی میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کل مریضوں میں ۳۰ فیصد عورتیں بھی اس مرض میں مبتلا پائی گئیں حالانکہ وہ سگریٹ نوشی نہیں کرتیں۔ ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ کینسر کے مرض کے علاج میں کمی رہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شروع میں پھیپھڑوں کے کینسر کوئی بی سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کا علاج ہوتارہتا ہے۔ ان تینوں خبروں کے تجزیے سے واضح ہوتا کا ہے کہ قدرت ہو یا جرائم پیشہ ٹولہ ان سب سے زیادہ قہر عورتوں پر ہی ٹوٹتا ہے اور جن عورتوں پر قہر ٹوٹ رہا ہے ان میں مسن بچیاں ،شادی شدہ لڑکیاں اور نسبتا بڑی عمر کی ایسی عورتیں بھی ہیں جن کو یہ کہہ کر معتوب نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سگریٹ نوشی یا ایسی ہی کسی بری عادت یا لت میں مبتلا ہیں۔

 

ان خبروں میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹونیو غطریس کے اس بیان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ہر ١١ منٹ پر کسی عورت یا لڑکی کو اس کے رشتہ دار، شناسا یا کوئی قریبی قتل کر دیتا ہے۔ ۲۵ نومبر عورتوں پر کئے جانے والے مظالم کے خاتمے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جنرل سیکریٹری اس ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے یا انہوں نے موقع کی مناسبت سے یہ خوفناک اطلاعات فراہم کیں۔ ان تمام خبروں یا اطلاعات میں جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شہر، ریاست، ملک اور انسانی برادری کسی بھی سطح پر عورتوں اور لڑکیوں کے حالات اطمینان بخش نہیں ہیں حالانکہ خواتین کی مقتدریت یا ان کو با اختیار بنانا سب سے مقبول نعرہ ہے اور ہر سمت و ہر سطح پر مسلسل بلند کیا جاتا رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دلفریب نعرے کے باوجود عورتوں اور بلوغ کی سمت بڑھتی لڑکیوں کی بے حرمتی، گمشدگی اور قتل و استحصال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نا انصافی تو عورت کا مقدر معلوم ہوتی ہے اگر چہ بظاہر وہ بہت اچھی حالت میں یا اچھے عہدے پر ہو۔

 

پیر ۲۱ نومبر کو ہندوستان کی مسلح فوج کی ۳۴ خاتون افسروں نے سپریم کورٹ میں جو شکایت کی اس سے فوج کی کارکردگی خاص طور سے اس کی ترقی دینے کی پالیسی پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ ان خاتون فوجی افسروں کو شکایت ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود انہیں وہ ترقی نہیں ملی ہے جس کی وہ حقدار ہیں۔ ملک کا آئین عورت مرد کو برابر کا حق دیتا ہے مگر عورتوں کو فوج میں جگہ پانے کے لئے طویل جنگ لڑنا پڑی تھی۔ پھر وہ ترقی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوئیں اور سپریم کورٹ نے ان کی بات سنی بھی مگر سپریم کورٹ کی بات نہیں سنی گئی۔ یہ صحیح ہے کہ فوج کے مختلف عہدوں پر فائز ہونے کے لئے سخت معیار ہیں اور ان میں کسی قسم کی ڈھیل کی سفارش نہیں کی جا سکتی مگر یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کے بھی پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ سنایا ہوگا۔ ۱۷ فروری ۲۰۲۰ کو سپریم کورٹ نے خاتون افسروں کو فوج میں مستقل کمیشن دینے کا تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے بعد مارچ ۲۰۲۱ء میں اس نے مزید ایک فیصلے میں کہا کہ خاتون افسران عہدے کی ترقی کے علاوہ تمام فائدوں کی حقدار ہیں جو انہیں ملنا چاہئے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان خاتون افسروں کو اپنے سے جونیئر افسروں کی ماتحتی میں کام کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں خاتون افسروں کے وکیل نے ان کا موقف رکھا اور فوج نے اپنا۔ مگر جوابات کا جائزہ لینے سے قطعی واضح ہو جاتا ہے کہ عذر کو ضابطے کی مجبوری بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس موقع پر یہ بات بھی کہی گئی کہ زائد افسروں کی ترقی کے لئے وزارت مالیات سے منظوری لینا ضروری ہے اور اسی سبب تاخیر ہورہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مرد افسروں کی ترقی کے لئے ایسی مجبوری یا ضرورت کیوں نہیں ہے؟ ان تمام خبروں اور تفصیلات کی روشنی میں بس یہی پوچھا جا سکتا ہے کہ دعووں کے باوجود کہاں محفوظ اور با اختیار ہیں ہماری بہنیں اور بیٹیاں؟

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top