مہاراشٹر میں ہندوتوا کا غلبہ: گائے کو راجیہ ماتا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی نئی لہر
.
.
.
.
.
ایکناتھ شندے نے یہ فیصلہ سنایا ہےکہ مہاراشٹر میں اب سے دیسی گایوں کو راجیہ ماتا کا درجہ دیا جاتا ہے، دوسری طرف دیویندر فڈنویس نے ریاست میں ووٹ جہاد کا الزام لگایا ہے، ایکناتھ شندے نے مہاراشٹرا کے مسلمانوں کے خلاف جتنی نفرت پھیلائی ہے اتنی کسی نے بھی نہیں پھیلائی تھی ۔
ہم نے بار بار کہا کہ مہاراشٹر میں جس طرز پر ہندوتوادی سرگرمیاں چل رہی ہیں اور ان کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے بے حسی ، انتشار ، سیاسی غلامی اور غفلت کا جو ماحول ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ ریاست جتنی زیادہ محفوظ ہے اس سے کئی گنا زیادہ نفرتی ہندوتوا کی فیکٹری بن جائے گی،
ناموسِ رسالت میں مراٹھی پنڈت کی گستاخی اور اس کو مہاراشٹر کے وزیراعلی ایکناتھ شندے کی حمایت پھر نتیش رانے کی مسلمانوں کو مسجدوں میں گُھس کر مارنے کی دھمکی اور اسٹیج سے کھلم کھلا مسلمانوں کو گالیاں اور حیدرآباد کے ملعون زمانہ گستاخ رسول راجہ سنگھ کو بار بار مہاراشٹر بلا کر اس کی مہاراشٹر کے اکثر ضلعوں میں سبھائیں کرانا، اس کے علاوہ پچھلے کئی سالوں سے مہاراشٹر کے ہر شہر میں سکآل ہندو سماج اور دیگر ہندوتوادی تنظیموں کے تحت ایک ہزار سے زائد آن ریکارڈ مسلم مخالف پروگرام ہوچکے ہیں، جب یہ پروگرام اپنے پہلے اسٹیج پر تھے تب بھی ہم نے مہاراشٹرا کے مسلمانوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن مجموعی طور پر یہاں کے مسلمانوں میں ” اوور کانفیڈنس” ” بے شعوری” اور ” ملی صف بندی سے بیزاری ” انتہا پر ہے، جس کے نتیجے میں صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے، اور صورتحال ابھی بھی ایسی ہی رہی تو پھر یہاں کے حالات اترپردیش اور مدھیہ پردیش سے زیادہ خراب نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟
یہاں پر مسلمانوں کا شیو جینتی اور گنپتی وغیرہ کے ذریعے ہندو سماج سے ایسا ربط ہوگیا ہے کہ اگر اس کی بروقت اصلاح نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں یہاں کے مسلمان سب سے آگے بڑھ کر نیشنلزم کے شرک اور ہندو دیومالائیت کے سب سے زیادہ شکار نظر آئیں گے، جس کے نتیجے میں وہ ایمان کی روحانی برکتوں اور عقیدہ توحید کی مضبوطی سے دور ہوتے جائیں گے،
مسلمانوں کا کوئی آزاد و خودمختار سماجی گروپ نظر نہیں آتا یہاں تک کہ مہاراشٹر مسلمانوں کی اپنی مقامی سماجی حیثیت بھی ہندوؤں میں گم ہورہی ہے نتیش رانے اور راجہ سنگھ اسی لیے مہاراشٹر بھر میں گھوم کر مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہیں ، جو کچھ مسلمان سماجی طور پر متحرک ہیں وہ سیاسی غلامی میں مبتلاء ہیں مسلمانوں کا کوئی گروپ کانگریسی غلام ہے، تو دیگر کی وابستگی شیوسینا، شرد پوار، اجیت پوار کےساتھ ہیں، جبکہ ایک وقت تھا کہ یہ سب سیکولر ہندو نیتا مہاراشٹر میں مسلمانوں کے بڑوں کے پاس لائن لگایا کرتے تھے لیکن آج انہی بڑوں کی اولادیں یہاں پر سیکولر ہندوؤں کے ساتھ فوٹو کھینچا کر پوسٹ کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں ۔ میں نے الحمدللہ 5 ۔ 6 سالوں میں کئی ایک کوششیں مہاراشٹر کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی ملّی صف بندی کے لیے کی ہے، بعض دیگر دردمند و مخلص مسلمانوں نے بھی کوششیں کی ہیں لیکن اکثر لوگ یہاں پر ہندوتوادی سرگرمیوں کے خلاف جواب دینے سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں اپنی زندگی کا ثبوت دینے اور ملت کی تنظیم سے بچتے ہیں، اور سیکولر ہندوؤں سے مربوط سیاسی مسلمان مسلمانوں میں ایسی بیداری آنے نہیں دیتے، اور ملی زندگی کی موت اسی پل شروع ہوتی ہے جب ملت زندگی کا ثبوت دینے سے بچنے لگتی ہے!
مہاراشٹر میں اگر جلد از جلد باحمیت و باغیرت ایمانی نظریات رکھنے والے مسلمانوں نے مسلمانوں کی ملی و نظریاتی صف بندی شروع نہیں کی تو یہاں پر مسلمان ملت کا وجود پوری طرح سے ہندو سماج میں گم ہو جائے گا ۔
گائے کو مہاراشٹر کی راجیہ ماتا بناکر ایکناتھ شندے نے جہاں گائے کے نام پر سیاست کرنے والوں کو مزید موقع دیا ہے وہیں اس مشرکانہ رسم کو مسلمانوں پر بھی مسلط کردیا ہے، کیونکہ اب وہ یقین کرچکے ہیں کہ مہاراشٹر میں مسلم سماج کی کوئی علیحدہ رائے میں اتنی طاقت نہیں بچی ہےکہ اس کی پروا کی جائے، لیکن یہ اقدام مسلمانوں کو مزید پھانسنے، گرفتار کرنے اور مویشیوں کے نام پر ماب لنچنگ کرنے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے.
.