بی جے پی دور حکومت میں جیل میں بند صحافیوں کی تعداد اس سال ریکارڈ سطح پر پہنچی

بی جے پی دور حکومت میں جیل میں بند صحافیوں کی تعداد اس سال ریکارڈ سطح پر پہنچی

.

 

 

 

 

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے اطلاع دی ہے کہ اس سال دنیا بھر میں اپنے پیشے کی وجہ سے جیل میں ڈالے گئے صحافیوں کی تعداد ر یکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، سی پی جے نے کہا کہ دنیا بھر میں یکم دسمبر 2022 تک 363 رپورٹرز صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں سی پی جے نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ایک نیا گلوبل ریکارڈ ہے، جو پچھلے سال کے اعداد و شمار سے 20 فیصد زیادہ ہے ۔ اس نے مزید کہا کہ پر میڈیا کے بگڑتے ہوئے منظر نامے کی سنگین حالت کی عکاسی کرتا ہے سی پی جے ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے، جو صحافیوں کے محفوظ طریقے سے اور انتقامی کارروائی کے خوف کے بغیر رپورٹ کرنے کے حق کے دفاع کے لیے کام کرتی ہے۔ اس نے اپنی سالانہ جیل سینس (مردم شماری) گزشتہ بدھ کو جاری کی ہے۔ یہ مسلسل ساتواں سال ہے جب دنیا بھر میں 250 سے زائد صحافی جیل میں بند رہے ہیں ۔ اس رپورٹ کے مطابق، رواں سال صحافیوں کو قید کرنے کے معاملے میں ایران، چین، میانمار، ترکی اور بیلاروس سرفہرست پانچ ممالک میں سی پی جے نے کہا کہ کووڈ 19 وبائی امراض اور اور یوکرین پر روسی حملے کے دوہرے بحران کے بیچ آمرانہ حکومتیں عدم اطمینان کو باہر آنے سے روکنے کے لیے میڈیا کو دبانے کی جابرانہ کو ششیں تیز کر رہی ہیں ۔

 

 

 

رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں اس وقت سات صحافی جیل میں ہیں، جن میں کشمیر نیریٹر کے آصف سلطان، سجاد گل، گوتم نولکھا، منن ڈار، صدیق کپن، فہد شاہ اور روپیش کمارسنگھ شامل ہیں۔ سال 1992 میں سی پی جے کی جانب سے یہ مردم شماری شروع کرنے کے بعد سے یہ لگاتار دوسرا موقع ہے، جب ہندوستان میں یہ تعداد ریکارڈ سطح پر رہی ہے ۔ سی پی جے کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں گزشتہ سال بھی سات صحافی جیل میں تھے سی پی جے نے کہا کہ میڈیا کے ساتھ ہندوستانی حکومت کے برتاؤ، خاص طور پر اس کے کڑے حفاظتی قوانین جیسے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو استعمال کرنے کو لے کر اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کا استعمال کشمیری صحافیوں۔ آصف سلطان، فہد شاہ اور سجاد گل کو الگ الگ مقدمات میں عدالت کی طرف سے ضمانت ملنے کے باوجو د جیل میں رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ جیل میں بند سات صحافیوں میں سے چھ کے خلاف یواے پی اے کے تحت تحقیقات کی جارہی ہیں یا ان پر اس کڑے قانون کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top