"بنگلہ دیش میں بدترین مظاہرے: عوام کو حسینہ واجد کی حکومت پر اتنا غصہ کیوں ہے؟”
.
.
.
.
.
بنگلہ دیش میں ان دنوں سخت بدامنی ہے۔
.
.
جنوبی ایشیا کے 17 کروڑ آبادی والے اس ملک میں سڑکوں پر احتجاج کوئی نئی بات نہیں لیکن گذشتہ ہفتے کے مظاہروں کو ان کی شدت کے باعث بنگلہ دیشی تاریخ کے بدترین مظاہرے قرار دیا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی ہفتوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔
سنہ 1971 میں پاکستان سے علیحدگی کے بعد سے ملک میں پبلک سیکٹر ملازمتوں کا ایک تہائی حصہ جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے لواحقین کے لیے مختص ہے۔
طلبا کا کہنا ہے کہ یہ نظام امتیازی ہے اور وہ میرٹ کی بنیاد پر بھرتیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کیمپس میں پرامن احتجاج سے شروع ہونے والا یہ معاملہ ملک گیر سطح پر بدامنی کا باعث چکا ہے۔
احتجاج کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور ملک میں زیرِ اقتدار عوامی لیگ کا طلبہ ونگ (جسے بنگلہ دیش چھاترا لیگ بھی کہا جاتا ہے) پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کر رہے ہیں جس سے عوام میں بڑے پیمانے پر غصہ پھیل رہا ہے۔
حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
ان پرتشدد مظاہروں میں اب تک 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے صرف جمعے کو ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 سے زیادہ تھی۔
حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی ہے اور ٹیلی فون سروسز کو محدود کر دیا گیا ہے۔
مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پہلے دن صرف پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن ایک موقع پر بارڈر گارڈ فورس بی جی بی کو بھی ان کی مدد کے لیے بلایا گیا۔ اس کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ سکے اور اب کرفیو لگا کر فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
حکمران جماعت عوامی لیگ کے جنرل سکریٹری عبیدالقادر کے مطابق ’یہ یقینی طور پر کرفیو ہے جس میں قواعد پر عمل کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔‘
.
.
یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا۔
.
.
بنگلہ دیش دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترقی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبا کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے کا سبب نہیں بن سکی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً ایک کروڑ80 لاکھ بنگلہ دیشی نوجوان نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ کم تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔
بنگلہ دیش تیار شدہ کپڑوں کی برآمدات کا پاور ہاؤس بن گیا ہے۔ یہ ملک عالمی منڈی میں تقریباً 40 ارب ڈالر مالیت کے کپڑے برآمد کرتا ہے۔
اس شعبے میں 40 لاکھ سے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔ لیکن پڑھی لکھی نوجوان نسل کے لیے فیکٹریوں کی یہ نوکریاں کافی نہیں ہیں۔
بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دورِ حکومت نے دارالحکومت ڈھاکہ میں نئی سڑکیں، پل، کارخانے اور میٹرو ریل بنا کر کافی حد تک ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔
پچھلی دہائی کے دوران ملک میں فی کس آمدنی تین گنا بڑھ گئی ہے اور عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ گذشتہ 20 سالوں میں دو کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ افراد غربت سے نکل آئے ہیں اور اب بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔
لیکن بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ اس میں سے کچھ ترقی کا فائدہ صرف حسینہ کی عوامی لیگ کے قریبی لوگوں کو ہی ہوا ہے۔
ڈاکٹر لُطفہ کا دعویٰ ہے کہ: ’ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہو چکی ہے، خاص طور پر حکمران جماعت کے قریبی لوگ اس میں زیادہ ملوث ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں طویل عرصے سے کرپشن بغیر کسی احتساب کے جاری ہے۔‘
.
.
بشکریہ :-انبارسن ایتھیرجن
جنوبی ایشیا کے ریجنل ایڈیٹر
(بی بی سی اردو نیوز)
.
- .