امامِ بارگاہ پر حملہ: دولت اسلامیہ نے عمان کو ہی نشانہ کیوں بنایا؟

امامِ بارگاہ پر حملہ: دولت اسلامیہ نے عمان کو ہی نشانہ کیوں بنایا؟

.

.

.

.

.

 

 

.

.

.

 

 

 

پیر کی شب عمان کے دارالحکومت مسقط کے قریب ایک امام بارگاہ پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ نے قبول کی ہے۔
عمان کی رائل پولیس کے مطابق مسقط کے قریب وادی الکبیر کے علاقے میں علی بن ابو طالب امام بارگاہ کے حملے میں اور اس کے بعد سکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے آپریشن میں نو افراد ہلاک جبکہ 30 سے زائد زخمی ہوئے تھے

 

 

 

 

دہشت گرد حملے میں ہلاک ہونے والوں میں چار پاکستانی، ایک انڈین، ایک پولیس اہلکار اور تین حملہ آور شامل ہیں۔
شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر جاری ایک بیان میں امام بارگاہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے دنیا بھر میں شعیہ برادری کے خلاف جاری ‘جنگ ‘کی ایک کارروائی قرار دیا۔

 

 

 

 

 

 

 

اس تنظیم کے حامیوں نے بھی سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر اس حملے پر جشنمنایا۔ فیس بک اور ٹیلیگرام پر شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے متعدد حامیوں نے حملے پر خوشی کا اظہار کیا اور اہل تشیع افراد کے لیے توہین آمیز کلمات کہے۔ سوشل میڈیا پر شدت پسند تنظیم کے ‘حملہ آوروں’ کی تعریف کی گئی اور کہا گیا کہ وہ شیعہ مسلمانوں سے ‘بدلہ لے رہے ہیں۔’
واضح رہے کہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ نے متعدد بار عراق، افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک میں شیعہ مجالس، جلوسوں اور عزاداروں کو بارہا نشانہ بنایا ہے۔ لیکن عمان میں اس کا یہ پہلا حملہ ہے جہاں شیعہ برادری اقلیت میں ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ شعیہ مسلمانوں کے خلاف یہ حملہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں بلکہ شیعہ اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔
عمان کو ایک عرصے سے مشرق وسطیٰ کے سب سے مستحکم اور محفوظ ممالک میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ عمان نے خطے میں تنازعات کو حل کرنے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔
خلیجی سلطنت عمان کی کل آبادی تقریباً 46 لاکھ ہے جس میں 40 فیصد سے زائد غیر ملکی ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

عمانی حکومت لوگوں کی مذہبی وابستگی کے بارے میں اعدادوشمار شائع نہیں کرتی تاہم امریکی محکمہ خارجہ کا اندازہ ہے ملک کی 95 فیصد آبادی مسلمان ہے جن میں 45 فیصد سنی جبکہ پانچ فیصد شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔
تاہم بقیہ پانچ فیصد آبادی میں ہندو، عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والے شامل ہیں۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ نے عمان میں ایسی کارروائی کیوں کی؟

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مگر اس سوال سے پہلے جانتے ہیں کہ عمان میں مذہبی آزادی کی کیا صورتحال ہے۔

 

 

.

.

.

.

 

 

عمان میں کتنی مذہبی آزادی حاصل ہے؟

.

.

.

 

عمان کو دیگر خلیجی ریاستوں کے مقابلے میں مذہبی طور پر زیادہ آزادی اور ہم آہنگی والے ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مسقط میں دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والی امام بارگاہ علی بن ابو طالب میں رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے والے سید شاندار علی شاہ بخاری نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عمان میں یومِ عاشور کے موقع پر اہل تشیع برادری کی بڑی تعداد میں موجودگی کی ایک وجہ ان کو وہاں ملنے والی قدرے مذہبی آزادی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سید شاندار علی بخاری کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے ہے اور وہ کئی سال سے عمان میں مقیم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے مقابلے میں عمان میں امام بارگاہوں کو زیادہ تحفظ حاصل ہے اور حکومت اہل تشیع برادری کو زیادہ سہولتیں فراہم کرتی ہے۔
سید شاندار علی بخاری کے مطابق یہی وجہ ہے کہ عمان کے علاوہ پورے متحدہ عرب امارات سے بھی لوگ محرم کے دوران مجالس میں شرکت کے لیے عمان کی بارگاہوں کا رخ کرتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

خیال رہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی امام بارگاہ علی بن ابو طالب ملک کی یہ واحد امام بارگاہ نہیں ہے۔ عمان میں اس کے علاوہ دیگر بارگاہیں بھی ہیں تاہم یہ ملک کی بڑی امام بارگاہوں میں سے ایک ہے۔

 

.

.

.

.

 

.

بشکریہ :- بی بی سی اردو نیوز

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top