بمباری کے سائے میں امید کی شمعیں

بمباری کے سائے میں امید کی شمعیں

.

.

.

.

.

.

.

آج کچھ مظلوم اہل غزہ تاریخ کے بدترین دور میں بہترین سرزمین مقدس پر ایک عظیم مقصد کے لئے اپنے رب کے شکر کا ترانہ گاتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ سارا غزہ غاصب اسرائیل کی ظالمانہ بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن کر کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غزہ میں نہ صرف انسانی بحران ہے بلکہ غربت، کسمپرسی، بے چارگی، اور ہولناکی کا ایک گرداب بھی ہے جس میں انسان دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اہل غزہ ٹوٹے پھوٹے خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں، کبھی سردی کی ہوائیں ان کے بچوں کے جسموں کو چیر دیتی ہیں تو کبھی گرمی کی لُو جسم جلا کر رکھ دیتی ہے۔ ظالمانہ بمباری سے ہزاروں جانیں گئی ہیں یہ کیا کم تھا کہ ناکہ بندی کے سبب بھوک کی شدت اور پانی کی قلت نے بھی کئی زندگیاں چھین لی۔
حالیہ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 4 ماہ کے دوران کم از کم 38 ہزار شہید، 88 ہزار زخمی، جبکہ 10 ہزار لاپتہ ہیں۔ ان شہداء میں تقریباً 16 ہزار بچے شامل ہیں، جن میں سے 34 بچے خوراک کی قلت کے باعث شہید ہوئے ہیں۔ لیکن موت اور تباہی کے باوجود غزہ باقی ہے۔ غزہ کے بچے موت سے خوفزدہ نہیں ہیں بلکہ وہ ایک لامحالہ آنے والے مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں، جس کو موت، قتل و غارت، اور تباہی کی تمام مشینیں نہیں روک سکتیں۔
**چمن میں آئیں گی فصلیں بہاراں ہم نہیں ہوں گے،
چراغِ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے**
دوسری طرف، اس جنگ سے عالمی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہ بھی قابل دید ہیں۔ اس جنگ نے اقصیٰ سے محبت کی روح پوری مسلم قوم میں پھونک دی اور مغرب میں قبول اسلام کی زبردست لہر پھیلی۔ یورپ میں اسلامی تنظیموں کی یونین کے سربراہ عبداللہ بن منصور نے بیان دیا کہ "ہم نے فرانس میں 40 سالوں میں اسلام قبول کرنے کا اتنا بڑا موقع نہیں دیکھا، خاص طور پر فرانسیسی نوجوانوں اور لڑکیوں میں، جتنا ہم غزہ جنگ کے بعد دیکھ رہے ہیں۔” نئے مسلمانوں کی سرکاری تعداد روزانہ 80 سے بڑھ کر 400 تک پہنچ گئی ہے، اور یہ تعداد ہر روز تین سو نئے فرانسیسی مسلمانوں سے کم نہیں ہے۔ بن منصور کے مطابق، دو ماہ کے اندر صرف فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد کم از کم بیس ہزار (20000) ہے، جن میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں۔ یہ تو مغربی اسلاموفوبیا میں غرق ملک کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے، ورنہ فرانس کے علاوہ درجنوں مغربی ممالک میں اسی تناسب سے قبول اسلام کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ ان سب کا سہرا غزہ کے بہادروں کے نام جاتا ہے۔
یاد رکھیے، غزہ کے یہ کھنڈرات صرف بمباری کا نشانہ بننے والے اسپتال، اسکول، مسجدوں، گرجا گھروں اور مکانوں کا نہیں بلکہ مغربی ممالک کی نام نہاد "انسانی ہمدردی” کے دعووں کا بھی ہے۔ اس جنگ نے مغربی ممالک کا نیا روپ دنیا کے سامنے پیش کیا اور اس ہولناکی کے بعد بچوں پر کی جانے والی بمباری کی حمایت میں فرنگی لیڈروں کے بیانات بھی پوری دنیا تک پہنچے، جس نے مغربی ممالک کے تمام "انسانیت نوازی کے دعووں اور نعروں اور UN اور WHO کی امریکہ نوازی کو طشت از بام کر کے رکھ دیا۔
اور دل سہ بارہ تب ہوتا ہے جب یہودیوں کی غلامی میں جکڑے مسلم ممالک کی تنظیم OIC اپنی مغربی غلامی اور امریکہ نوازی پر پردہ ڈالنے کے لئے غلام حکمرانوں کی میٹنگیں بلواتی ہے اور فوٹوشوٹنگ کے بعد کھوکھلی اور بے حیثیت بیان بازی کرتے نہیں تھکتی۔ غزہ کے معصوموں کی آہیں اور سسکیاں ان حکمرانوں کے عیش و عشرت اور بے حسی کو دیکھ کر اور بھی بلند ہو جاتی ہیں۔ یہ ہوس کے پجاری اور سیاست کے بھوکے حکمران اپنا سیاسی کھیل کھیلنے کے لئے ان معصوموں کی جانوں کو بھول چکے ہیں۔ مگر یاد رکھیں، غزہ کے ان معصوموں کی ہر ایک آہ اور سسکی ایک احتجاج ہے، ایک ایسی چنگاری ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بھڑکے گی اور غاصب اسرائیل اور اس کے ہمنوازوں کے غرور و تکبر کی چادر کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔

 

.

.

.

خون میں نہائے پھولوں کی یہ کہانی ہے،
سر زمینِ غزہ پہ ظلمت کی روانی ہے

.

.

.

.

.

✍🏻 ازقلم: محمد جنید مہاراشٹر (متعلم دارالعلوم دیوبند)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top