علامہ اقبال پر کفر کا فتویٰ کیسے لگا؟

علامہ اقبال پر کفر کا فتویٰ کیسے لگا؟

.

 

.

 

 

15 اکتوبر 1925 کی بات ہے کہ اس زمانے کے مشہور اخبار ’زمیندار‘ کے پہلے صفحے پر ایک ایسی سنسنی خیز خبر شائع ہوئی جس نے پڑھنے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
یہ ایک فتویٰ تھا جسے لاہور کی مسجد وزیر خان کے خطیب مولوی دیدار علی الوری نے جاری کیا تھا۔ مولوی دیدار مشہور و معروف عالمِ دین اور مفتی تھے، اور ان کا فتوے دینا عام بات تھی۔ مولوی صاحب نے اپنی زندگی میں شاید سینکڑوں فتوے جاری کیے ہوں گے لیکن شاید انہیں اس وقت گمان تک نہ ہو گا کہ ان کے اس فتوے کی دھمک ایک صدی بعد بھی سنائی دے گی۔
یہ فتویٰ علامہ اقبال کے بارے میں تھا۔ وہ اقبال جو اس وقت نہ صرف برصغیر کے اردو فارسی ادبی منظرنامے پر ہمالیہ کی طرح چھائے ہوئے تھے، بلکہ ان کا چرچا افغانستان، ایران اور ترکی کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی ہو رہا تھا۔ خسرو، کبیر، وارث شاہ اور ٹیگور کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسی شخصیت ہو جسے پچھلے ہزار برسوں میں ہندوستان کے طول و عرض میں عوام و خواص دونوں کی طرف سے ایسا والہانہ قبولِ عام ملا ہو، اس لیے اس فتوے پر اتنا شدید ردِ عمل آیا۔ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اگر اقبال بھی کافر ہے تو پھر مسلمان کون ہے؟
’اسم ’پروردگار‘ اور ’یزدان‘ عرفان مخصوص جناب باری ہے اور اوتار ہنود کے نزدیک خدا کے جنم لینے کو کہتے ہیں۔ اندرین صورت ’یزدان‘ اور ’پروردگار‘ آفتاب کو کہنا صریح کفر ہے۔ علیٰ ہذا، خدا کے جنم لینے کا عقیدہ بھی کفر اور توہین موسیٰ اور توہین بزرگان دین، فق لہٰذا جب تک ان کفریات سے قائل اشعار مذکور توبہ نہ کرے اس سے ملنا جلنا تمام مسلمان ترک کر دیں، ورنہ سخت گناہ گار ہوں گے۔‘
محمد دیدارعلی، خطیب مسجد وزیر خان لاہور
جن لوگوں کو مولوی صاحب کی اردو کے ’گاڑھا‘ ہونے کی شکایت ہو ان کے لیے ’سلیس‘ اردو میں عرض ہے (یہ الگ بات کہ لفظ ’سلیس‘ خود گاڑھا ہو چکا ہے!) مولوی صاحب فرما رہے ہیں کہ مندرجہ ذیل چیزیں کفر ہیں:
لفظ ’پروردگار‘ اور ’یزدان‘ صرف خدا کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، اس لیے سورج کو پرورگار یا یزدان کہنا
یہ کہنا کہ خدا نے جنم لیا ہے
موسیٰ علیہ السلام یا دوسرے بزرگانِ دین کی توہین
اب سوال یہ بنتے ہیں کہ کیا اقبال نے واقعی یہ تینوں مذکورہ کام کیے ہیں اور اگر کیے ہیں تو کیا اس پر کفر کا فتویٰ لگ سکتا ہے اور مزید یہ کہ مولوی دیدار کے جاری کردہ فتوے کا پس منظر کیا تھا؟
جیسا کہ دنیا میں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے، معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے اور اس کی کئی پرتیں ہیں جنہیں ہم کھولنے کی کوشش کریں گے۔ اصل میں مولوی صاحب نے براہِ راست اقبال کے کلام سے یہ ’قابلِ اعتراض‘ نکتے دریافت نہیں کیے تھے، بلکہ انہیں ایک خط موصول ہوا تھا جس میں ان کی رائے پوچھی گئی تھی۔ وہ
خط یہ ہے: ’کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور امین شرح متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص اشعار میں آفتاب کو خدائی صفات کے ساتھ متصف کرے اور اس سے مراد طلب کرے اور آخرت پر یقین نہ رکھے، حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر پر استہزا کرے، علمائے کرام اور پیران عظام پر آوازے کسے اور انہیں برے خطابات سے یاد کرے، ہندوؤں کے ایک بزرگ کو جسے وہ خدا کا اوتار مانتے ہیں، ’امام‘ اور ’چراغ ہدایت‘ کے الفاظ سے یاد کرے اور اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو؟
’کیا ایسا آدمی اسلام پر ہے یا کفر پر؟ اس کے ساتھ لین دین نشست و برخاست اور ہر طرح طرح کا مقاطعہ کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ نہ کرنے والوں کے متعلق کیا حکم ہے؟‘
اس کے بعد اس خط میں اقبال کے کچھ اشعار بھی پیش کیے تھے جن میں اوپر دیے گئے ’متنازع‘ نکات موجود ہیں:
اے آفتاب ہم کو ضیائے شعور دے
چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے
٭
خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری
شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
٭
غضب ہیں یہ مرشدانِ خودبیں خدا تری قوم کو بچائے
بگاڑ کر ترے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
٭
اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند
ہے رام کے وجود پر ہندوستان کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کا امامِ ہند
مولوی دیدار نے اسی خط کے جواب میں فتویٰ لکھا تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ فتویٰ صرف ’زمیندار‘ اخبار میں شائع ہوا اور مولوی صاحب نے خود اس کی تشہیر نہیں کی تھی۔
مولوی صاحب جو اعتراضات کیے ان پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ آفتاب والے اشعار (ہم نے اختصار کی غرض سے ایک ہی شعر دیا ہے مگر خط میں چار شعر ہیں) اقبال کی نظم ’آفتابِ صبح،‘ سے لیے گئے ہیں جو ان کی کتاب ’بانگِ درا‘ میں شامل ہے۔
یہ اقبال کی طبع زاد نظم نہیں بلکہ دراصل رگ وید کی ایک سنسکرت دعائیہ نظم کا ترجمہ ہے۔ یہ اقبال کے ابتدائی دور کی نظموں میں شامل ہے اور سب سے پہلے 1903 میں ایک رسالے ’مخزن‘ میں شائع ہوئی تھی۔
اس وقت اس کے ساتھ ایک نوٹ بھی شامل تھا کہ ’ذیل کے اشعار رگ وید کی ایک نہایت قدیم اور مشہور دعا کا ترجمہ ہیں جس کو گایتری کہتے ہیں۔۔۔ اصل میں اس لفظ سے مراد اس آفتاب کی ہے جو فوق المحسوسات ہے اور جس سے یہ مادی آفتاب کسبِ ضیا کرتا ہے۔‘
آسان زبان میں جس سورج کی اس نظم میں بات ہو رہی ہے وہ آسمان پر چمکنے والا سورج نہیں بلکہ نیکی اور بھلائی کی علامت ہے جس سے سورج بھی استفادہ کرتا ہے اور بقیہ کائنات بھی۔ اسلام میں بھی خدا کو کائنات کا نور کہا گیا ہے، اس لیے یہ خیال بہت زیادہ قابلِ گرفت نہیں۔
لیکن اتفاق سے جب یہ نظم بانگِ درا میں شامل کی گئی تو یہ تمہید کسی وجہ سے حذف کر دی گئی۔
مزید یہ کہ مولوی دیدار نے فتوے میں لکھا ہے کہ ’یزداں‘ اور ’پرورگار‘ صرف ’ذاتِ جناب باری‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں، مگر شاید انہوں نے غور نہیں کیا کہ یہ الفاظ عربی کے نہیں بلکہ فارسی زبان کے ہیں۔ یزداں پارسی مذہب میں استعمال ہوتا رہا ہے جب کہ پروردگار تو ایک قسم کی شراب کو بھی کہتے ہیں۔
اقبال کی احتیاط کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس نظم میں عربی کی بجائے فارسی الفاظ زیادہ برتے ہیں تاکہ یہ نظم اسلامی عقائد سے متصادم نہ ہو سکے۔
جہاں تک دوسرے اشعار کی بات ہے تو اگر ایسے شعروں پر فتوے لگتے رہے تو پھر کوئی اردو فارسی شاعر کفر سے بچ نہیں سکے گا، بلکہ اس لپیٹے میں بہت سے صوفی بزرگ بھی آ جائیں گے۔ امیر خسرو، مولانا رومی، حافظ شیرازی، بیدل، میر، غالب وغیرہ کے ہاں ایسے ’قابلِ فتویٰ‘ شعر تھوک کے حساب سے مل جاتے ہیں۔
عبدالمجید سالک نے اپنی کتاب ’ذکرِ اقبال‘ میں لکھا ہے کہ ’اس فتوے پر ملک بھر میں شور مچ گیا۔ مولوی دیدار علی پر ہر طرف سے طعن و ملامت کی بوچھاڑ ہوئی۔ مولانا سلیمان ندوی نے ’زمیندار‘ میں اس جاہلانہ فتوے کی چتھاڑ کر دی۔۔۔ ایک گمنام مقالہ نگار نے ایک مدلل مضمون میں اس فتوے کا جواب دیا، یعنی اشعارِ منقولہ کے ایک ایک لفظ پر بحث کر کے ثابت کیا کہ ان سے ہرگز کفر کا شائبہ تک پیدا نہیں ہوتا۔‘
عبدالمجید سالک مزید لکھتے ہیں کہ ’مولوی دیدار علی کی اس حرکت سے علمائے اسلام کے اجتماعی وقار کو سخت صدمہ پہنچا کیوں کہ مسلمانوں کے تمام طبقات عالم و عام، قدیم، تعلیم یافتہ اور جدید پڑھے ہوئے لوگ علامہ اقبال کو نہایت مخلص مسلمان، عاشقِ رسول، درمندِ ملت، حامیِ دینِ اسلام تسلیم کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہمارے علما کے نزدیک اقبال جیسا مسلمان بھی کافر ہے تو پھر مسلمان کون ہے؟‘
اس کے علاوہ حکیم احمد علی فیروز پوری نے بھی زمیندار میں مولوی صاحب کے خلاف مضامین لکھ کر ان کے فتوے پر کڑی گرفت کی۔ جن صاحب کو سالک نے گمنام مقالہ نگار کہا ہے، دوسری کتابوں میں ان کا نام چوہدری محمد حسین (ایم اے) لکھا ہے۔ انہوں نے اور حکیم فیروزپوری صاحب نے تو الٹا یہ سوال اٹھا دیا کہ کیا اس فتوے کے بعد خود مولوی صاحب خود مسلمان رہے یا نہیں؟
مولوی دیدار کون تھے؟
مولوی دیدار کوئی چھوٹی موٹی شخصیت نہیں بلکہ اپنے دور کے نہایت مشہور و معروف عالمِ دین تھے جن کا تعلق بریلوی مسلک سے تھا اور ان کو براہِ راست احمد رضا خاں بریلوی سے شاگردی اور رہنمائی کا شرف حاصل تھا۔
ضیائے طیبہ نامی ویب سائٹ کے مطابق وہ 1852 کو الور میں پیدا ہوئے تھے۔ دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1907 میں لاہور آ کر یہاں ’قوت الاسلام‘ کے نام سے مدرسہ قائم کیا۔ 1922 میں مسجد وزیرِ خاں کے خطیب مقرر ہوئے۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ ان کا انتقال 1935 میں، یعنی اقبال کے رحلت سے تین سال قبل ہوا۔
جیسا کہ پہلے ذکر آیا، مولوی صاحب کفر کے فتوے دینے میں تیز تھے۔ اقبال سے پہلے مشہور کانگریسی رہنما ڈاکٹر سیف الدین کچلو کے علاوہ ’زمیندار‘ کے مدیر مولانا ظفر علی خاں کے خلاف بھی ایک شعر کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ دے چکے تھے۔
مولوی دیدار کو پھانسا گیا تھا؟
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ یہ معاملہ دو جمع دو چار نہیں کہ مولوی دیدار نے اقبال کے شعر دیکھے اور فتویٰ جڑ دیا۔ ’زمیندار‘ کے اسی شمارے میں جو تفصیل چھپی ہے اس سے ایک اور کہانی سامنے آتی ہے۔ مولوی دیدار تک یہ شعر کیسے پہنچے تھے، اس کے بارے میں لکھا ہے:
مولوی دیدار کے ’حد سے بڑھے شوقِ تکفیر کو دیکھ کر ایک زندہ دل اور خوش طبع مسلمان نوجوان نے جو ’پیرزادہ محمد صدیق سہارنپوری‘ کے نام سے موسوم ہونا پسند کرتے ہیں، مولوی دیدار کے پاس حسبِ ذیل استفتا (سوالنامہ) بھیجا، جس پر مولوی دیدار علی صاحب نے بےتکلف علامہ اقبال ایسے ترجمانِ حقیقت اور لسانِ اسلام کے کافر اور فاسق ہونے کا فتوی دے دیا اور ان سے ملنے جلنے والوں کو سخت گنہگار قرار دے دیا ہے۔‘
یہ سوالنامہ آپ اوپر دیکھ چکے ہیں جس میں مولوی دیدار سے اقبال کے شعر لکھ کر ان کے بارے میں رائے طلب کی گئی تھی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس سوالنامے میں شاعر کا نام درج نہیں ہے، اس لیے گمان یہی ہے کہ مولوی دیدار نے شاعر کا نام جانے بغیر ہی فتویٰ لکھ دیا۔
اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ ’خوش طبع‘ سائل پیرزادہ محمد صدیق سہارنپوری کون تھے جس نے مولوی صاحب سے فتویٰ طلب کیا تھا؟
اقبال کے مستند سوانح نگار خرم علی شفیق لکھتے ہیں کہ ان دنوں زمیندار کے مدیر مولانا ظفر علی خاں اور نائب مدیر غلام رسول مہر دونوں ملک سے باہر گئے ہوئے تھے، اور اخبار کی ادارت کی ذمہ داری نوجوان ادیب عبدالمجید سالک کے کندھوں پر آ گئی تھی۔ خرم علی شفیق کے مطابق سالک نے ’مولوی صاحب کو شرمندہ کرنے کے لیے اس طرح ان سے فتویٰ لیا کہ ایک فرضی نام سے سوال بھجوایا گیا، سوال میں علامہ کا نام نہیں لیا گیا۔ علامہ کے مشہور ترین اشعار کی بجائے بعض ایسے اشعار لکھے جو صرف کتابوں اور رسالوں میں شائع ہوئے تھے، جلسوں میں نہیں پڑھے گئے تھے۔‘
شفیق مزید لکھتے ہیں کہ ’فتویٰ حاصل کر کے اس لیے شائع کیا گیا کہ علامہ اقبال اس وقت ہندوستان کے اُن چند مسلمانوں میں سے تھے جن کے خلاف کفر کے فتوے کا تصوّر ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘
جہاں تک مولوی دیدار سے سوال پوچھنے والے پیرزادہ کا تعلق ہے تو گمان غالب ہے کہ وہ عبدالمجید سالک خود ہی تھے۔
کیا صرف عبدالمجید سالک ہی ذمہ دار تھے؟
لیکن ہمارا سوال ہے کہ کیا سارا ملبہ سالک پر ڈالنا مناسب ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ’زمیندار‘ نے بطور ادارہ ہی مولوی صاحب کو ہدف بنانے کی سازش کی ہو؟ آخر مولوی صاحب نے ’زمیندار‘ کے مالک اور مدیر مولانا ظفر علی خاں پر بھی فتویٰ لگایا تھا اور مولانا نے ان کی ہجو بھی لکھی تھی۔
(لوگوں کی دل آزاری کے خدشے کے پیشِ نظر ہم وہ ہجو یہاں نقل نہیں کر سکتے، البتہ کسی کو شوق ہو تو وہ خرم علی شفیق کی کتاب ’اقبالِ: دورِ عروج‘ کے صفحہ 328 پر پڑھ سکتا ہے۔)
اس لیے ہم یہ مفروضہ پیش کر سکتے ہیں کہ شاید زمیندار نے بطور ادارہ مولوی صاحب کو نیچا دکھانے کا منصوبہ بنایا، اور جس وقت اس منصوبے پر عمل درآمد ہوا عین اسی وقت ادارے کے مدیر اور نائب مدیر پراسرار بلکہ مشکوک طور پر ملک سے باہر چلے گئے تھے تاکہ ان پر حرف نہ آئے۔
مزید یہ کہ اس قسم کے منصوبے کے لیے خاصی طویل منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے، اس لیے یہ بات قرینِ قیاس نہیں لگتی کہ ایک نوجوان مدیر، جو عارضی طور پر اخبار کی ادارت سنبھالے ہوئے ہے، ادارے کی آشیرباد کے بغیر خود اپنے طور پر اتنا بڑا منصوبہ بنائے اور جلدی جلدی اس پر عمل بھی کر گزرے۔
زرد صحافت؟
زمیندار نے بطور ادارہ جو کچھ کیا اس سے ایک تیر سے دو شکار گرے۔ مولوی دیدار تو نشانہ تھے ہی، لیکن اتنی تہلکہ خیز اور دھماکہ دار خبر چھاپنے کے بعد یقیناً اخبار کی اشاعت میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہو گا۔ اخبار میں چھپنے والے مضامین سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معاملہ ہفتوں بلکہ مہینوں گرم رہا تھا۔
اب معاملہ یہ ہے کہ اگر خرم علی شفیق کا نظریہ درست ہے تو پھر ’زمیندار‘ نے خبر ’چلائی‘ نہیں بلکہ خبر ’بنائی‘ اور اس کے لیے مولوی دیدار کے علاوہ علامہ اقبال کو بھی استعمال کیا گیا۔ مولوی صاحب کو نیچا دکھانے کی کوشش میں اور اپنے اخبار کی مقبولیت بڑھانے کے لیے اقبال پر کفر کے مصنوعی فتوے سے ظاہر ہے کہ اقبال کو بھی شدید ذہنی دھچکہ پہنچا ہو گا۔ انہوں نے ایک خط میں بھی اس کا اظہار کیا ہے کہ مجھ پر تو کفر کے فتوے لگ رہے ہیں۔
البتہ یہ کہنا بےجا نہ ہو گا مولوی دیدار کی جلدبازی اور تکفیر کی عادت نے انہیں نقصان پہنچایا اور ’زمیندار‘ نے ان کے خلاف جو پھندا تیار کیا وہ بےدھڑک اس میں پھنس گئے۔

از: ظفر سید

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top