دارالعلوم دیوبند آرہے ہندو دھرم گرو کو میرٹھ پولیس نے روکا.

دارالعلوم دیوبند آرہے ہندو دھرم گرو کو میرٹھ پولیس نے روکا

.

.

.

.

.

..

.

.

غزوہ ہند کے متعلق علماء سے مباحثہ کرنے کی غرض سے دارالعلوم دیو بند آ رہے ہندو حراست انتہا پسند مذہبی رہنمایتی نرسمها نند گری کو میرٹھ پولیس نے روک لیا اور انہیں حر میں لے لیا ، اس دوران پولیس انہیں پر تا پور تھا نہ لے آئی اور چائے ناشتہ کے ساتھ مٹھائی کھلا کر استقبال کیا، اس دوران پولیس نے زرسمها نند سے رسمی پوچھ تاچھ کی اور بعد میں انہیں ڈاسنا مندر لے جا کر تین دن کے لئے نظر بند کرنے کا دعویٰ کیا ۔
ڈاسنا مندر کے مہامنڈلیشور نرسمہانند گری اپنے ساتھیوں کے ساتھ دارالعلوم دیو بند کے علماء سے غزوہ ہند پر بحث و مباحثہ کرنے کے لئے دیو بند آ رہے تھے ، لیکن پر تا پور میں پولیس نے انہیں روک لیا ۔ پولیس ٹیم نرسمها نند گری اور ان کے ساتھیوں کو پر تا پور تھا نہ لے گئی ، جہاں انہیں قریب ڈیڑھ گھنٹے تھانہ میں بٹھائے رکھا۔ بعد ازاں پولیس انہیں ڈاسنا مندر لے گئی اور تین دنوں کے لئے نذر بند کر دیا ۔
پولیس کی جانب سے حراست میں لیے جانے کے بعد نرسمہانند نے بتایا کہ وہ دارالعلوم دیو بند کے علماء حضرات سے غزوہ ہند سے متعلق گفتگو کرنے کے لئے دیو بند جا رہے تھے ۔ انہوں نے پولیس کی جانب سے دیو بند جانے کے لئے روکے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ علماء حضرات کی جانب سے غزوہ ہند کو اسلامک کہے جانے کی بات کو وہ تفصیل سے
سمجھنے کے لئے جا رہے تھے ، لیکن سوشل میڈیا پر میری ملاقات سے متعلق غلط باتیں پوسٹ کی گئی ، جس کے بعد پولیس کو یہ محسوس ہوا کہ میرے دیو بند جانے سے ماحول خراب ہو جائے گا۔
میرٹھ کے ایس پی سٹی آیوش و کرم سنگھ نے بتایا کہ بیتی نرسمها نند گری اور ان کے ساتھیوں کو پر تا پور کے تھانہ میں ہی روک لیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس ان کے پورے قافلہ کو ڈاسنا مندر لے جا کر چھوڑ آئی ۔ وہیں دوسری جانب دیو بند میں بھی بیتی نرسمہانند گرمی کے دارالعلوم دیو بند آنے کی اطلاع پر مقامی انتظامیہ پوری طرح الرٹ رہی ۔ سی او دیو بند اشوک سسودیا اور دوسرے پولیس افسران نے دارالعلوم دیوبند پہنچ کر ادارہ کے مہتم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی اور دوسرے ذمہ داران سے ملاقات کی اور حفاظتی بند و بست کا جائزہ لیا ۔ اس پورے واقعہ سے متعلق دارالعلوم دیو بند کی جانب
سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
.

.

.

.

بشکریہ :- سمیر چودھری

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top