بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں

بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں

.

.

.

.

شکر و سپاس سے لبریز ہے میرا قلب، اور مصروفِ ثنا خوانی ہے میری لسان اس رب رحیم کے لئے جو کل جہان کا پالنہار، اور خالق صبح ازل تا مساء ابد ہے، جو تمام شرور و فتن سے منزہ و بے نیاز ہے، اور درود و سلام نازل ہو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جو طہر و تقدس، عظمت و عفاف اور عبادت و ریاضت وغیرہ اوصاف کے ساتھ متصف ہیں، جو محبوب رب کائنات اور ساقی کوثر ہیں۔ جن کے لئے سورج کو ضیاء بخشی گئی، اور چاند کو منور کیا گیا، جن کے صدقہ و طفیل میں اس کائنات کو وجودِ زندگانی عطاء کی گئی، اور اسی کائنات کے اندر مختلف نوعیت کے خلائق کو پیدا کیا گیا۔ جن میں سے ایک نوع نوع انسانی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی وجہ تخلیق کیا ہے؟
تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔ وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون۔ کہ جن و انس کی مقصد تخلیق محض عبادت کے لئے ہے، اس لئے ایک ایسے مسکن و مرجع اور معبد کی ضرورت محسوس ہوئی، جس میں مومنین یکسو ہو کر اپنے رب کی عبادت میں سرشار و خندہ زن ہوں، لہذا اسی ضرورت کے پیشِ نظر بیت اللہ و بیت عتیق کا قیام عمل میں آیا، جسے مسجد کے نام سے موسوم کیا گیا، اور بابری مسجد اسی کی ایک کڑی ہے۔
.

.

تاریخ اجودھیا ۔۔۔

.

.

اجودھیا دنیا کی وہ قدیم ترین آبادی ہے، جو حالاتِ زمانہ کے تغیر و تبدل کی وجہ سے کئی مرتبہ آباد و برباد ہوئی۔ قدیم مورخوں نے صفحہ قرطاس پر اس کو لیکر رقم طراز ہیں کہ یہیں منی پربت کے دامن میں ایک احاطہ ہے، جس میں حضرت شیث علیہ السلام کے علاوہ حضرت ایوب اور آپ کی زوجہ مطہرہ جو حالتِ مرض میں آپ کے ساتھ تھیں ان کا مزار ہے، حضرت شیث علیہ السلام کے مزار کو آج بھی ہندو "شیث ناگ کا کالجر کا مزار” کہتے ہیں۔ یہیں پر ہند ابن حام ابن نوح کا مزار ہے، جو نو گزی قبر سے مشہور ہے۔

.

.
بابر بادشاہ کی ہند پر فتح یابی۔۔

.
.
بابر بادشاہ نے ہندوستان پر سب سے پہلے ١٩٢٥؁ھ میں حملہ کیا، مسلسل چار حملوں کے ناکامی کے بعد ١٩٣٢؁ھ میں تخت شاہی دہلی پر فائز ہوگیا، ١٩٣٥؁ھ میں وہ اودھ کی طرف آیا، اور یہاں شیخ بایزید کی شورش کو ختم کیا، پھر شیخ بایزید کی شکست کے بعد میر باقی تاشقندی کو اودھ کا حاکم مقرر کیا، اور خود فوجوں کے ساتھ کوچ کرگیا۔
.

.

بابری مسجد کی سنِ تاسیس اور اس کی پیمائش۔۔

.

.

تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد بادشاہ بابر کے دور میں حاکم اودھ میر باقی اصفہانی نے ٩٣٥؁ھ بمطابق ١٥٢٨؁ء میں تعمیر کرائی، مسجد کے مسقف اندرونی حصے میں تین صفیں ہیں، اور ہر صف میں اندازاً ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے ہیں، اور صحن میں چار صفیں ہیں، اس طرح بیک وقت تقریباً ساڑھے آٹھ سو آدمی اس میں نماز ادا کرسکتے ہیں، اور اس مسجد کا تاریخی نام "بود خیر باقی” ہے۔
.

.

امامت کے فرائض کے انجام دینے والے حضرات۔

.

.

ابتدائے تعمیر سے مسجد میں پنچ وقتہ نماز اور جمعہ ہوتا رہا ہے، عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ امامت کے فرائض ١٨٥٨؁ء سے ١٨٧٠؁ء تک محمد اصغر نے، ١٨٧٠؁ء سے ١٩٠٠؁ء تک‌ مولوی عبد الرشید نے، ١٩٠١؁ء سے ١٩٣٠؁ء تک مولوی عبد القادر نے، ١٩٣٠؁ء سے ١٩٤٩؁ء قرق ہونے تک مولوی عبد الغفار نے انجام دیئے۔

.

.

اختلاف کی ابتدا۔۔

.

.

قیامِ مسجد سے ١٢٧٢؁ھ بمطابق ١٨٥٥؁ء سے پہلے کی مدت میں، تاریخی، قانونی، عرفی، کسی اعتبار سے بھی کوئی اختلاف و نزاع سامنے نہیں آیا، لیکن جب یہاں انگریزوں کا عمل دخل شروع ہوا تو اس نے اپنی منحوس ڈپلومیسی "لڑاؤ اور حکومت کرو” کے تحت دونوں فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے کی غرض سے مسجد، مندر، جنم استھان وغیرہ کا قضیہ چھیڑ دیا، "جنم استھان” افسانے کا پلاٹ اس طرح تیار کیا گیا کہ ایک بدھشٹ نجومی کو پہلے سے سکھا پڑھا کر اس سے رام جنم استھان کے رسوئی کی جگہ معلوم کی گئی، اس نے زائچہ کھینچ کر بتایا کہ "جنم استھان اور سیتا کی رسوئی” بابری مسجد سے متصل احاطہ کے اندر ہے، پھر جذباتی قسم کے ہندوؤں کو اکسایا گیا کہ وہ ان دونوں پوتر استھانوں کو حاصل کرنے کی جد وجہد کریں، "نقی علی خان” جو اگرچہ "نواب علی شاہ” کا خسر اور وزیر تھا، ان دوہرے رشتوں کے باوجود "واجد علی شاہ” کے مقابلے میں در پردہ اس کی وفاداریاں انگریزوں کے ساتھ تھیں، علاوہ ازیں رشوت خوری میں بھی اپنے وقت میں طاق تھا، ان وجوہ سے اس نے اس فسانے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا، عاقبت سے غافل نواب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ مسجد کے باہر مگر احاطہ مسجد کے اندر "جنم استھان و سیتا کی رسوئی” کے لئے جگہ دی جائے، چنانچہ مسجد کے مسقف حصے کے بالمقابل داہنی سمت احاطہ کی دیوار کے متصل "سیتا رسوئی” کے لئے اور صحنِ مسجد سے باہر بائیں پورب کی طرف جنم استھان کے طور پر ٢١/ فٹ لمبی اور ۱۷/ فٹ چوڑی جگہ دے دی گئی، جہاں پوجا پاٹ کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا، حالانکہ جس وقت جنم استھان کا یہ افسانہ گھڑا گیا اس وقت "الیگزنڈر کینگھم” کی تحقیق کے مطابق لکشمن گھاٹ سے ¼ میل کے فاصلے پر بیچ شہر میں جنم استھان کا مندر موجود تھا، اسی موقع پر یہ بھی انتظام کیا گیا کہ لوہے کہ سلاخوں سے صحنِ مسجد کو گھیر دیا گیا جو اب تک کھلا ہوا تھا، گویا اس مسجد اور فرضی جنم استھان کے درمیان حدِ فاصل قائم کرکے مسجد کی حفاظت کی طرف سے اطمینان کرلیا گیا۔

.

.

مخالفین کی ظالمانہ شازشیں اور کورٹ سے اس کی پھٹکار۔۔

.

.

اس مصالحانہ کوشش کو پامال کرنے کے بعد ١٨٥٨؁ء میں جنم استھان کے قصے کو پھرسے زندہ کیا گیا، اس طریقے پر کہ فرضی جنم استھان کی اس پرتی زمین پر ایک بالشت چبوترہ بنا لیا گیا، اور اس خلافِ قانون بے جا مداخلت پر عدالت سے چارہ جوئی کی گئی تو تھانیدار کو معطل اور ان بیراگیوں پر جرمانہ عائد کیا گیا، مگر اس چبوترے کو فاسد امراض کے تحت باقی رکھا گیا، اس واقعہ کے چند مہینوں بعد ایک سرکاری ملازم بیگ سنگھ نے چند بیراگیوں کو لیکر اندھیری رات میں محرابِ مسجد کے پاس ایک چھوٹا سا چبوترہ بنا دیا اور دیوارِ مسجد پر جا بجا کوئلے سے رام لکھ دیا، پھر اس نزاعی چبوترے کو مزید اونچا کرکے اس پر ایک مورتی نصب کردی، علاوہ ازیں چبوترے سے متصل ہوم کا ایک گڑھا بنا لیا، صبح کو جب مسلمان مسجد میں آئے اور ان بے جا حرکتوں کو دیکھا تو اس وقت کے بابری مسجد کے خطیبِ مؤذن اصغر نے اس کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی، جس پر اندر کے چبوترے کو عدالت نے کھدوا دیا، نیز حدودِ مسجد سے باہر احاطہ سے اندر والے چبوترہ پر جو زیادتی کی گئی تھی اسے بھی توڑوا دیا، ہوم کے گڑھے کو پٹوا دیا اور مورتی بھی وہاں سے اٹھوا دی، اس درخواست اور اس کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیراگیوں، مسلمانوں اور سرکاری عدالت سب کے نزدیک جنم استھان کی جگہ خارج مسجد احاطہ کے اندر معلوم و متعین تھی، جھگڑا تھا تو صرف اس متعینہ جگہ میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کا، مسجد سب کے نزدیک بے نزاع مسلم طور پر مسجد تھی، بہرحال اس مقدمے کے بعد تقریباً بارہ سال تک کسی قسم کے نزاع یا مقدمے بازی کا پتا نہیں چلتا، لیکن ١٨٧٠؁ء میں فریقین کے درمیان احاطہ مسجد کی دیوار اور پھاٹک کے سلسلے میں تنازع ہوا، اور عدالت میں مقدمہ چلا، لیکن اس مقدمے کا فیصلہ دستیاب نہیں ہوسکا۔

.

.
۱۸۷۰؁ء‌ سے ۱۹۳۴؁ء‌ تک کے چند مختصر واقعات۔۔

.
.
۱۸۷۰؁ء میں پی کارنیگی کمشنر اودھ نے جعلی رپورٹ پیش کی کہ مسلمانوں کے حملے کے وقت یہاں تین اہم مندر تھے، ۱۸۷۱؁ء‌‌ میں الیگزنڈر لننگھم نے اس بے بنیاد رپورٹ پر اصافہ کیا کہ مسلمانوں نے اس مندر مسمار کردیا تھا، ۱۹۳۴؁ء میں ہندو مسلم زبردست تصادم ہوا، صحن مسجد میں ہوم کا گڑھا بنا کر آگ جلائی گئی، دیواروں پر رام منا کیا، اور مسجد کی دیوار گرادی، محراب کے دائیں، بائیں کے دو کتبے اکھاڑ دئیے، حکومت نے صفای اور مرمت کرا دی۔

.

.
بابری مسجد کو غیر قانونی طور پر مندر بنانے کی ناروا کوشش۔۔

.

.

۱۹۴۸؁ء/۱۹۴۹؁ء میں ملک کے اندر بالخصوص یوپی، میوات، دھلی، ہریانہ، پنجاب وغیرہ صوبوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑگ اٹھی، جس نے ملک کے نظام کچھ دنوں کے لئے معطل بنا دیا گیا، اسی اتھل پتھل اور افراد تفری کے زمانے میں ۲۲/۲۳ دسمبر ۱۹۴۹؁ء کے سب میں گڑھی کی مہنت ” ابھی رام داس” اپنے چیلوں کے ساتھ مسجدکی دیوار پھاند کر اس میں گھس گئے اور اس کے درمیانی گنبد میں عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی، چنانچہ وہاں ڈیوٹی پر متعین کانسٹبل ” ماتو پرساد ” نے تھانے میں حسب ذیل رپورٹ درج کرائی
"ابھے رام داس "شکل داس "سدرشن داس” اور پچاس نامعلوم آدمیوں نے مسجد کے اندر مورتی استھاپت (نصب) کرکے مسجد کو ناپاک کردیا ہے، جس سے نقضِ امن کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
اس رپورٹ کے بنیاد پر فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے دفعہ ۱۴۵؀ کے تحت مسجد اور اسکے ملحق گنج شہیداں کو کو قرق کرلیا اور "پریہ دت رام” چیرمین میونسپل بورڈ فیض آباد سے رسیور مقرر کرکے مسجد پر تالا لگا دیا گیا، اور فریقین کے نام ۱۶/ جنوری ۱۹۵۰؁ء کو نوٹس جاری کردی کہ وہ اپنے دعویٰ کے بارے میں ثبوت پیش کریں۔

.

.

زمین کی کھدائی کے ذریعہ تفتیش۔۔

.

.

۱۹۷۸؁ء سے ۱۹۸۰؁ء کے درمیان بابری مسجد کی بنیادیں اور اجودھیا کے دوسرے مقامات کی کھدائی کی گئی، تاکہ رام چندر جی کے کچھ آثار برآمد ہوجائیں، مگر اس میں مایوسی ہاتھ کگی، البتہ اس کے برخلاف مسلمانوں کی قدیم ترین آبادی کے نشانات ملنے لگے، انتہائی خاموشی سے اسے غائب کردیا گیا۔
.

.

مسجد کو مند بنانے کی آخری سازش۔۔

.

 

 

۲۵/ جنوری۱۹۸۶؁ء میں رمیش پانڈے نے جو کبھی مقدمے کا فریق نہیں تھا، منصف کی عدالت میں پوجا پاٹ کے لئے تالا کھلوانے کی درخواست دی، جو رد کردی گئی، پھر اس نے ۳۰/جنوری کو ڈسٹرکٹ جج کے ایم پانڈے کے یہاں اپیل کی تو قبول کرلی گئی، اور اس سلسلے کی مسلمانوں کی درخواست خارج کردی گئی، یکم فروری ۱۹۸۶؁ء کو جج نے تلا کھلوانے کا حکم دیا تو صرف ک
چالیس منٹ کے لئے اندر مجسٹریٹ نے ۵ بجکر ۱۹/ پر تالا کھول کر مسجد ہندؤں کو دے دی، اور کچھ ہی دیر بعد مسجد میں پوجا پاٹ کا فاتحانہ منظر سامنے آگیا، ۲/ فروری کو یومِ غم اور ۱۴/ کو پورے ملک میں یومِ سیاہ منایا گیا۔
.

.

شہادت بابری مسجد، برصغیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن۔

.

.

یک شنبہ ۶/دسمبر ۱۹۹۲؁ء بمطابق ۱۰/ جمادی الثانی ۱۴۱۳؁ھ‌ دن میں ۱۱ بجکر ۴۵/ پر بابری مسجد پر حملہ شروع ہوا، پولیس نے میدان چھوڑ دیا، پہلے گنبد پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا، ۱۲/ بج کر ۲۰/ منٹ پر باہری دیوار گرائی گئی، ۱ بج کر۵۰/ منٹ پر صدر دروازہ گرایا گیا، ۲/ بج کر ۴۵/ منٹ پر شمالی گنبد منہدم ہوا، ۴/ بج کر ۳۰/ منٹ پر جنوبی گنبد زمین بوس ہوا، جس میں چار کارسیوک دفن ہوگئے، پھر ۴/ بج کر ۵۰/ منٹ پر درمیانی گنبد شہید کردیا گیا، پانچ گھنٹے میں مسجد ملبہ کا ڈھیر بن گئی، پھر رات بھر میں ملبہ ہٹا دیا گیا، وہاں عارضی مندر کی پانچ فٹ دیواریں، چبوترہ اور زینہ بنا کر پھر مورتی نصب کردی گئی تو مرکزی فورس سے آڈر ملا، جس نے ۸/ دسمبر کو صبح ۴/ بجے مندر تعمیر میں مشغول کارسیوکوں کو آنسو گیس کے چھ گولے داغ کر ہٹا دیا، پھر ۱۰/ بجے سے وہاں پوجا پاٹ شروع ہوگئی، ۷/ سے ۱۳/ دسمبر تک مسلمانوں نے احتجاج اور غم و غصّہ کا اظہار کیا، پھر دسیوں ہزار مسلمان پولیس کی گولی سے شہید ہو گئے، پورا ملک مقتل بن گیا، ۳۱/ دسمبر ۱۹۹۲؁ء کو فیض آباد سے مسلمان منہدم بابری مسجد پر نماز پڑھنے جا رہے تھے تو لاٹھی چارج اور ہزاروں کو گرفتار کرکے کرفیو لگا دیا گیا، پھر ۷/ جنوری ۱۹۹۳؁ء‌ بابری مسجد اور اس سے متصل ۶۷/ ایکڑ زمین مرکزی حکومت نے اپنی تحویل میں لیکر فریقین کے اختیارات سلب کرلئے۔

.

.
ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی دہلیز پر۔۔

.
. 7
۳۰/دسمبر ۲۰۱۰؁ء کو الہٰ آباد ہائی کورٹ سے سہ رکنی بینچ یہ فیصلہ سناتی ہے کہ بابری مسجد تین حصوں میں تقسیم کی جائے گی، ایک حصہ نرموہی اکھاڑہ کے لئے، دوسرا رام مندر، اور تیسرا بابری مسجد کے لئے، لیکن اسی پر بس نہیں، بلکہ یہ تنازع سپریم کورٹ میں جاتا ہے، ۹/ نومبر ۲۰۱۹؁ء کو عدالت کی جانب سے مسجد کے وجود کو مٹانے کا اعلان کردیا جاتا ہے، تمام دلائل و شواہد کے ہوتے ہوئے دن کے اجالے میں سرعام انصاف کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، اور ہم اس ظالمانہ و متعصبانہ فیصلے پر بے بسی کے ساتھ کفِ افسوس ملتے ہوئے یہ سوچ کر خاموش ہوگئے کہ
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا ہی قصور نکلے گا
لیکن ایسے وقت میں ہم حکومت و عدالت کو آمریت و ناانصافی کا طوق پہنا کر خود کو سبکدوش نہیں کرسکتے، بلکہ اگر ہم یہ واقعی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہوا ؟ یا یہ سب ہماری برسوں کی بے حسی کا نتیجہ ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ روحانی، اخلاقی، فطری، علمی، سیاسی، سماجی، اقتصادی ہر اعتبار سے پستی و کمتری کے اسیر ہیں؟

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top