حضرت مولانا محمد اِلیاس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی دین کے لیے فکر
از :مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
.
.
.
.
میرے والد ِماجد مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ایک مرتبہ دیوبند سے دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی میں آپ کو یہ خبر ملی کہ بانی تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی بیمار ہیں، چنانچہ اُن کی عیادت کے لیے وہ بستی نظام الدین تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ معالجین نے ملاقات سے منع کیا ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت والد صاحب نے وہاں پر موجود لوگوں سے عرض کردِیا کہ میں تو عیادت کے لیے حاضر ہوا تھا۔ حالات معلوم ہوگئے اور معالجین نے چونکہ ملاقات سے منع کیا ہوا ہے۔ اِس لیے ملاقات کا اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں، بس جب حضرت کی طبیعت ٹھیک ہو تو حضرت کو بتادیں کہ میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تھا اور میرا سلام عرض کردیں۔یہ کہہ کر حضرت والد صاحب رخصت ہوگئے، کسی نے اندر جاکر بانی تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کو بتادیا کہ حضرت مفتی صاحب آئے تھے۔ حضرت مولانا نے فوراً ایک آدمی پیچھے دوڑا دِیا کہ مفتی صاحب کو بلاکر لائیں۔ حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ میں اُن کے ساتھ واپس گیا اور حضرت کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور آپ کی مزاج پرسی کی۔ تو حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بے ساختہ روپڑے اور پھر زار و قطار رونا شروع کردیا۔ حضرت والد صاحب فرماتے ہیں مجھے یہ خیال ہوا کہ بہرحال اِس وقت تکلیف اور بیماری میں ہیں۔ اُس کا طبیعت پر اثر ہے اِس لیے میں نے تسلی کے کچھ کلمات کہے۔ اس پر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی نے فرمایا کہ میں تکلیف اور بیماری کی وجہ سے نہیں رورہا ہوں بلکہ مجھے اس وقت دو فکریں اور اندیشے لاحق ہیں، اُنہی کی وجہ سے میں پریشان ہوں، اسی وجہ سے رونا آرہا ہے۔ حضرت والد صاحب نے پوچھا، کون سی فکریں لاحق ہیں؟ تو حضرت مولانا نے فرمایا کہ ’’پہلی بات یہ کہ جماعت کا کام اب روز بروز پھیل رہا ہے۔ الحمد للہ اُس کے نتائج اچھے نظر آرہے ہیں اور لوگ جوق در جوق جماعت میں وقت لگارہے ہیں، اب مجھے یہ ڈر لگتا ہے کہ جماعت کی یہ کامیابی کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’استدراج‘‘ نہ ہو‘‘۔ (استدراج اس کو کہتے ہیں کہ کسی غلط کار آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل دے دِی جاتی ہے اور اُس کو ظاہری کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ اللہ کی رضا مندی کا کام نہیں ہوتا) ۔اِس سے اندازہ لگائیے کہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی کس مقام کے بزرگ تھے۔ حضرت والد صاحب فرماتے ہیں، میں نے فوراً عرض کیا کہ حضرت! آپ کو میں اِطمینان دِلاسکتاہوں کہ یہ استدراج نہیں ہے۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ تمہارے پاس اِس کی کیا دلیل ہے کہ یہ استدراج نہیں ہے؟ تو حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ اِس کی دلیل یہ ہے کہ جب کسی کے ساتھ استدراج کا معاملہ ہوتا ہے تو اُس شخص کے دِل و دماغ پر یہ واہمہ بھی نہیں گزرتا کہ یہ استدراج ہے اور اُس کو استدراج کا شبہ بھی نہیں ہوتا اور آپ کو چونکہ استدراج کا شبہ ہورہا ہے تو یہ شبہ خود اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ استدراج نہیں ہے۔ اگر یہ استدراج ہوتا تو کبھی آپ کے دِل میں اس کا خیال بھی نہ پیدا ہوتا۔ اس لیے میں آپ کو اِس بات کا یقین دِلاتا ہوں کہ یہ استدراج نہیں بلکہ یہ جو کچھ ہورہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد و نصرت ہے۔ حضرت والد صاحب فرماتے ہیں کہ میرا یہ جواب سن کر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کے چہرے پر بشاشت آگئی اور فرمایا ’’الحمد للہ تمہاری اِس بات سے مجھے بڑا اِطمینان ہوا۔‘‘