مدنی صاحبان کے نظریات پر علمائے دارالعلوم دیوبند کے نام کھلا خط

مدنی صاحبان کے نظریات پر علمائے دارالعلوم دیوبند کے نام کھلا خط

..

.

.

.

..

*دارالعلوم دیوبند کے مؤقر اساتذہ کرام !*
*دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے محترم مفتیان عظام!*

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
آج کے ہولناک حالات، دہشت انگیز ماحول اور نزاعی کیفیت میں گرفتار کراہتی اور سسکیاں لیتی ہوئی ملت اسلامیہ ہندیہ ایک نہایت حساس موضوع پر آپ حضرات سے راہنمائی کی طالب ہے۔
امید ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے مؤقر اساتذہ اور قابل احترام مفتیان بلا خوف لومۃ لائم ملت کی صاف ستھری اور کھری راہنمائی فرمائیں گے۔
اس خط کے مخاطب بنیادی طور تین طرح کے لوگ ہیں۔
اول : عمومی طور پر ہندوستان بھر کے وہ تمام علما حق ہیں جو شریعت سے وفاداری کا جذبہ رکھتے ہیں، جن کے دل میں ملت کے لیے ایسا دھڑکتا دل ہے جو انہیں سچائی کے اظہار سے روک نہیں سکتا۔
ثانيا : خصوصی طور پر اس خط کے مخاطب مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کرام و مفتیان عظام ہیں۔
ثالثا : اس خط کے اخص الخاص مخاطبين دارالعلوم دیوبند کے وہ کبار اساتذہ ہیں جو جمعیت علما کے عہدہ اور مناصب کے بھی حامل ہیں، جن میں سے چند اہم نام درج ذیل ہیں :

 

 

 

مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب، مہتمم دارالعلوم دیوبند رکن عاملہ جمعیت علمائے ہند۔
مفتی راشد اعظمی صاحب نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند رکن عاملہ جمعیت علما ہند۔
مولانا سلمان بجنوری صاحب استاذ دوره حدیث شریف دارالعلوم دیوبند، نائب صدر جمعیت علمائے ہند۔
مفتی سلمان منصور پوری استاذ دوره حدیث شریف دارالعلوم دیوبند، رکن عاملہ جمعیت علما ہند۔

 

 

 

قابل صد احترام مخاطبین کرام!
ماضی میں جمعیت علما ہند ملت کا ایک باوقار اور مضبوط پلیٹ فارم رہا ہے، لیکن گزشتہ چند برسوں سے جمعیت کی نہایت کمزور پالیسیز اور اس کے ذمہ داران خصوصا مدنی صاحبان (مولانا ارشد مدنی، مولانا محمود مدنی، مولانا اسجد مدنی) کے بےتحاشہ نامناسب اور نقصاندہ بیانات سامنے آئیں ہیں، جن میں سے کچھ پیش خدمت ہیں :
آرٹیکل 370 کی منسوخی میں ہم حکومت کے ساتھ ہیں : مولانا محمود مدنی
خارجہ پالیسی میں ہم حکومت کے ساتھ ہیں : مولانا محمود مدنی (جب کہ یہ قطعی طور پر ثابت ہوچکا کہ مودی گورنمنٹ فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیلی حکومت کو بھرپور امداد فراہم کررہی ہے، خواہ عسکری امداد ہو، سفارتی امداد ہو، یا انٹلیجنس انفارمیشن کا اشتراک ہر سطح پر بھاجپا، نیتن یاہو کے قدم سے قدم ملا کر کھڑی ہوئی ہے)
این آرسی نافذ ہونی چاہیے : مولانا محمودمدنی
اسد الدین اویسی کو لیڈر سمجھنےوالے پاگل ہیں : مولانا محمود مدنی
اوم اور اللہ ایک ہیں : مولانا ارشد مدنی واؤ نسبتی کے اعتبار سے یہ بات درست ہے کہ ہم سب ہندو ہیں : مولانا ارشد مدنی آر ایس ایس کی پالیسی بدل رہی ہے اور اس کے قدم اب درستی کی جانب گامزن ہیں : مولانا ارشد مدنی
عوام کو چاہیے کہ مساجد و مدارس کی بنیاد رکھتے وقت ہندوؤں کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں اور یکجہتی کے لیے ان کے تہوار میں شریک ہوں مثلا دیوالی پر موم بتی جلائیں : مولانا اسجد مدنی نائب صدر جمعیت علما ہند
اسلام اور ہندوستان میرے لیے دو آنکھوں کی طرح ہے (یعنی برابر ہے) : مولانامحمود مدنی
نیز 29 مئی 2022 کو جمعیت کا ایک مشترکہ اجلاس سرزمین دیوبند پر منعقد ہوا جس میں مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی سمیت دارالعلوم کے متعدد بڑے اور مؤقر اساتذہ شریک تھے، ان کی موجودگی میں یہ ریزولیشن پاس ہوا کہ ملک پہلے ہے ملت بعد میں، ملک بچے گا تب ہی ملت محفوظ رہے گی۔ نیز یہ کہ ہم راشٹرواد کی حمایت میں ہیں، جب کہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ راشٹر واد آر ایس ایس کی مخصوص اصطلاح ہے جس میں وطن کی عبادت اور اس کے بھگوان ہونے کا نظریہ شامل ہے۔ آپ خواہ لغوی معنی کو ملحوظ رکھ کر لفظ "راشٹر واد” سے کتنا ہی گنجائشی معنی کشید کریں مگر عام لوگوں کے ذہن میں راشٹر واد سے اسی جانب منتقل ہوتا ہے جو میڈیا چینلز کے ذریعے آر ایس ایس کے ہرکاروں نے عام کردیے ہیں۔
محترم علمائے کرام!
قوم آپ سے جاننا چاہتی ہے کہ کیا آپ حضرات مدنی صاحبان کے مندرجہ بالا تمام بیانات اور افکار و نظریات سے متفق ہیں؟
اگر نہیں ہیں تو کھل کر اس کا اظہار فرمائیں۔ تاکہ امت شکوک و شبہات اور فکری بے راہ روی سے محفوظ رہے، کیوں کہ آپ لوگ جمعیت کے کلیدی اراکین ہیں، سو آپ کی خاموشی تائید تقریری ہوتی ہے اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ آپ بھی ان سب باتوں کو درست سمجھتے ہیں اور آپ کا یہ ماننا ہے کہ ان نظریات کو اختیار کرنے اور ان کا پرچار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور اگر آپ حضرات واقعی مدنی صاحبان کے بیانات کو درست سمجھتے اور ان سے اتفاق رکھتے ہیں تو اس کا بھی کھل کر اظہار کریں تاکہ شکوک و شبہات دور ہوں اور امت کے سامنے ایک دو ٹوک اور متفقہ رائے آسکے، امت یہ جان سکے کہ ہمارے مؤقر علما کی کیا رائے ہے اور ہمیں کیا رائے اور کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
اور اگر آپ حضرات کوئی واضح موقف سامنے نہیں لاتے بل کہ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو اس کے دو مطلب ہوسکتےہیں :
۱۔ تمام حضرات مدنی صاحبان سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن ان کے خوف اور اپنے مفادات کی وجہ سے اظہار کی جرأت نہیں رکھتے۔
۲۔ یہ تمام حضرات مدنی صاحبان کی پالیسیوں سے متفق ہیں، لیکن سوالات و اعتراضات کے خوف سے کھل کر اتفاق کا اظہار نہیں کرتے۔
ہم حسن ظن رکھتے ہیں کہ ہمارے تمام مؤقر علما دونوں میں سے کسی صورت کے مصداق نہیں ہوں گے اور مندرجہ بالا نازک و حساس معاملات پر درست راہنمائی کی منتظر ملت اسلامیہ ہندیہ کی صحیح تر رہنمائی فرمائیں گے۔
خدا ہم سب کو حق گوئی و حق بیانی کی توفیق دے، گفتار و کردار کی جرأت عطا فرمائے ۔ آمین

اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه

بينوا وتوجروا

.

سائل : ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top