مہاراشٹر میں مسلمانوں کو بنگلہ دیشی ثابت کرنے کی سازش

سیف علی خان پر حملہ کرنے والے کو ڈرامائی انداز میں” بنگلہ دیشی ” مسلمان ثابت کرکے میڈیا کے ذریعے مہاراشٹر کے مسلمانوں کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،
سیف علی خان پر حملہ کرنے والے کو بنگلہ دیشی مسلمان ثابت کرنے کے پہلے سے ہی مہاراشٹر اور ممبئی میں بنگلہ دیشی اور روہنگیا مسلمانوں کا پروپیگنڈہ بھاجپا نے شروع کردیا تھا، البتہ سیف علی خان والے واقعے کو بنگلہ دیشی مسلمان والے پروپیگنڈے کو شدت کےساتھ گرمانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔
صوبائی الیکشن جیتنے کے فورا بعد بھاجپا اور سنگھ پریوار نے مہاراشٹر میں یہ کھیل شروع کر دیا ہے، جیتنے کے بعد مہاراشٹر اسمبلی میں وزیر اعلیٰ فڈنویس نے خود کہا کہ وہ بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کی شناخت کرکے انہیں ڈٹینشن سینٹر میں ڈالنے کے لیے پُرعزم ہیں اور اس کام کے لیے ڈٹینشن سینٹر کے لیے جگہ بھی فراہم کردی گئی ہے، لیکن مہاراشٹر کے مسلمان اس پر بھی سوتے رہے، مہاراشٹر اور ممبئی کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو بنگلہ دیشی یا روہنگیائی گھس پیٹھیا ثابت کرنے کے لیے جس انداز میں ماحول بنایا جارہا ہے وہ تشویشناک نہیں بلکہ خطرناک ہے ۔
اب تک مسلمانوں کے خلاف یہ والی سیاست راجدھانی دہلی یا تو سرحدی ریاستوں میں کی جارہی تھی لیکن اب اسے مہاراشٹر میں بھی پھیلایا جارہا ہے ۔
لیکن بہت زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مہاراشٹر کے مسلمان عمومی طور پر اس گھٹیا سیاست کے خطرے کو محسوس نہیں کرپا رہے ہیں اگر یہ سیاست پھیل گئی تو مہاراشٹر میں مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
ایکناتھ شندے کےساتھ ملکر نتیش رانے جیسے ہندوتوادی شدت پسندوں نے پہلے مہاراشٹر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ویسا ماحول بنایا جو پہلے اترپردیش میں تھا تب بھی مہاراشٹر کے مسلمان سوتے رہے اور نتیجتاً آج اس ریاست میں بھی ہندوتوا نفرت جابجا پھیل گئی ، جب یہ نفرت پھیلنا شروع ہوئی تھی تبھی ریاست کے اہم افراد کو متوجہ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے توجہ نہیں دی اگر توجہ دیتے تو اتنی زیادہ نفرت نہیں پھیلتی۔
آج مہاراشٹر میں بنگلہ دیشی اور روہنگیائی گھس پیٹھیے تلاشنے کی مہم شروع ہوئی اگر اس میں بھاجپا کی سیاست کامیاب ہوگئی تو اس ریاست میں مسلمانوں کا بڑا برا حال ہوجائےگا۔
مہاراشٹر میں مسلم ذمہ داران، جماعتوں اور ملی قائدین کو اس بنگلہ دیشی سیاست کے خلاف ابھی سے سخت رخ اختیار کرنا ہوگا، جن کو مسلمانوں نے لوک سبھا اور ودھان سبھا میں ووٹ دیا ہے ان پارٹیوں کے سیکولر ہندو نیتاؤں کو اب آگے آنا چاہیے، مہاراشٹر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی شہریت پر بنگلہ دیشی سوالیہ نشان کو اپنی توہین سمجھ کر ٹھکرادیں ۔