اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی سازش کی لمحہ بہ لمحہ کہانی منظر عام پر آگئی
حماس کے سر براہ اسماعیل ہنیہ کو 31 جولائی 2023 کو صدر مسعود پزیشکیان کی تقریب حلف برداری کے بعد تہران کے انتہائی حساس علاقے میں واقع سرکاری گیسٹ ہاؤس میں پر اسرار دھماکے میں شہید کر دیا گیا تھا ۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اس پر اسرار قتل کی ذمہ داری ایران اور حماس نے اسرائیل پر عائد کی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے نہ تو کبھی تردید کی گئی اور نہ ہی تصدیق کی گئی تھی ۔
تاہم اب چند روز قبل ہی اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز نے انکشاف کیا کہ ان کا ملک اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کے پیچھے تھا۔
اس بیان کے بعد اسرائیلی میڈیا میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور اس میں تاخیر سے متعلق مندرجات منظر عام پر لائے گئے ہیں۔
اسرائیل میڈیا کے بقول ایران کو مزید شرمندگی سے بچانے کے لیے نئے صدر کی حلف برداری تک آپریشن میں تاخیر کی گئی ورنہ اسما عیل ہنیہ کو تقریب سے پہلے بھی نشانہ بنایا جا سکا تھا ۔
خیال رہے کہ اسما عیل ہنیہ کے قتل کے بعد پاسداران انقلاب نے ابتدائی طور پر روحانی پیشوا خامنه ای کو غلط بتایا کہ حماس کے سر براہ کی موت اسرائیلی میزائل لگنے سے ہوئی تھی ۔
اسرائیلی میڈیا کے بمطابق اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کا فیصلہ حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کو کیے گئے حملے کے بعد ہی کیا جا چکا تھا
اسماعیل ہنیہ قطر میں مقیم تھے لیکن انھیں وہاں قتل کرنے سے یر غمالیوں کی رہائی کے لیے جاری مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
اس لیے اسماعیل ہنیہ کو کہاں مارا جائے ؟ اس کے لیے ترکیہ ، روس اور ایران کے آپشنز تھے جہاں حماس رہنما اکثر آتے جاتے رہتے تھے تاہم ترکیہ میں کی گئی ایسی کسی کارروائی پر اسرائیل کو صدر رجب طیب اردگان کی طرف سے شدید رد عمل کا خدشہ تھا اور اسی طرح اسرائی ، روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی بھی ناراضگی کا سبب نہیں بننا چاہتے تھے
اسرائیلی میڈیا کے بقول اس لیے ملک ایران کا سب سے موزوں آپشن کے طور پر انتخاب کیا گیا ۔
اسماعیل ہنیہ ایران میں بار بار پاسداران انقلاب کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرتے تھے جو سعادت آباد کے پر تعیش شمالی تهران میں واقع ہے ۔
اسرائیلی انٹیلی جنس کے مطابق اس علاقے میں اسماعیل ہنیہ کو قتل کی منصوبہ بندی کو قدرے آسانی ممکن بنایا جا سکتا تھا ۔
ابتدائی طور پر اسرائیل نے اسما عیل ہنیہ کو ایران میں اُس وقت نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا جب وہ 19 مئی کو ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہونے والے سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے تهران آئے تھے۔
تاہم نماز جنازہ میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اور اس طرح کسی بھی کارروائی میں معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے خدشے کے باعث قتل کے منصوبے کو عین موقع پر موخر کر دیا گیا ۔
یہ بھی دیکھا گیا کہ پاسداران انقلاب کی ماہر حفاظتی جماعت بطور مہمان خصوصی اسماعیل ہنیہ کو اپنے سخت حصار میں رکھتی ہے جس کے باعث انھیں قتل کرنے کے لیے ہلکی دراندازی غیر موضوع و ناکافی ہے ۔
اسرائیل نے اب کی بار آپریشن کا مزید دو ماہ سے زیادہ انتظار کیا جب اسماعیل ہنیہ نئے ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران گئے ۔
تقریب حلف برداری سے پہلے ہی صبح اسماعیل ہنیہ کو گیسٹ ہاؤس میں نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پھر اس کارروائی کو رات تک مؤخر کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی تاکہ تقریب حلف برداری مکمل ہو سکے اور ایران کو مزید ہزیمت اور شرمندگی سے بچایا جا سکے ۔
تقریب حلف برداری سے کچھ دیر پہلے ہی اسرائیلی ایجنٹوں نے اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں ان کے بستر کے قریب ایک دیسی ساختہ دھما کہ خیز آلہ نصب کر دیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا چینل 12 کے مطابق گو یہ دھماکا خیز آلہ منصوبہ بندی سے تھوڑا بڑا تھا لیکن پھر بھی اتنا بڑا نہیں تھا کہ ملحقہ کمروں کو نقصان پہنچا سکے ۔ تاہم ہم میں اتنی طاقت تھی کہ اسما عیل ہانیہ موقع پر ہی شہید ہو جائیں ہے تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد اسما عیل ہنیہ اپنے کمرے میں پہنچ گئے ۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک کمرے کا اسے سی خراب ہو گیا اور وہ دوسرے کمرے میں چلے گئے جو اتنا دور تھا کہ اس بم سے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
یہ وہ وقت جب اسرائیلی منصوبہ سازوں کو لگا کہ قتل کی یہ سازش ناکام ہو گئی لیکن کمرے کا اسے سی ٹھیک کر دیا گیا اور اسماعیل ہنیہ واپس لوٹ آئے اور ساتھ ہی اسرائیلی منصوبہ سازین کے ہونٹوں پر مکروہ مسکراہٹ بھی ۔
تقریباً 1:30 بجے اس آئی ای ڈی بم کو دھما کا سے اُڑا دیا گیا جس سے کمرے کی بیرونی دیوار میں ایک سوراخ پڑ گیا اور پورا کمپاؤنڈ ہل کر رہ گیا تھا لیکن جو مقصد تھا وہ پورا ہو گیا یعنی اسما عیل ہنیہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
سیکنڈوں میں ہی موجودہ پاسداران انقلاب کی طبی امدادی ٹیم اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں پہنچی لیکن انھیں وہاں حماس کے رہنما مردہ حالت میں ملے ۔
اسماعیل ہنیہ کے نائب خلیل الحیا بھی کمرے میں فورا پہنچ گئے اور اپنے لیڈر کی خون آلود لاش کو دیکھ کر روتے ہوئے گھٹنوں کے بل گر گئے ۔
اہم شخصیات اور حساس مقامات کے حفاظتی امور کے ماہر تجزیہ کاروں نے اسرائیلی میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ کسی ایرانی شهری، پاسداران انقلاب کے اہلکار یا حماس کے عہدیدار کی مدد کے بغیر ایسی پیچیدہ کارووائی نا ممکن ہے ۔
اسرائیلی چینیل 12 کے مطابق کہ حماس اور ایرانی انٹیلی جنس نے یقینی طور پر ان تینوں آپشنز کی تحقیقات کی ہیں ۔
ایران کو اس کارروائی کے بعد بڑی شرمندگی اُٹھانا پڑی ان کی صفوں میں گھبراہٹ اور خوف کا سیلاب چھا گیا اور پاسداران انقلاب کی ایلیٹ قدس فورس کے سر براہ اسماعیل قانی کئی ہفتوں تک منظر عام سے غائب ہو گئے کیونکہ اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ وہ اس سازش کو کیوں نہ پکڑ سکے ۔
دعوی کیا جا رہا ہے کہ قتل کے چند گھنٹے بعد اسماعیل قانی نے خود ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو فون کیا اور روتے ہوئے بتایا تھا کہ اسماعیل ہانیہ ایک اسرائیلی میزائل حملے کہ زد میں شہید ہو گئے۔
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ نے اسی وقت فون پر ہی حکم دیا کہ فورا اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا جائے ۔
تاہم ایران کے سپریم لیڈر کے لیے یہ بات مزید شرمندگی کا باعث ہوئی کہ پاسداران انقلاب کے بیان کے بالکل برعکس اسماعیل ہنیہ میزائل حملے نہیں بلکہ بم دھماکے میں شہید ہوئے ۔
پاسداران انقلاب کے ابتدائی دعوے بھی غلط ثابت ہونے کے بعد اسرائیل پر جوابی کارروائی کو مؤخر کر دیا گیا ۔ شاید ایران اس قتل سازش کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہتا تھا ۔
تاہم صرف دو ماہ بعد ہی ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف جوابی حملہ شروع کیا جسے آئی ڈی ایف نے امریکہ اور اردن کی فوجوں کے ساتھ مل کر بڑی حد تک ناکام بنا دیا ۔
Yjkj