پندرہ اگست یوم آزادی کا دن ہے،اس روز میرا ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا تھا، میں جذبہ وطنیت سے سرشار، ترنگا لہرانے کیلئے نکل پڑا، کیونکہ میں نے ایک نعرہ سنا تھا، ایک آواز، جو ہر جگہ سنائی دے رہی تھی، ایک اشتہار جو ہر جگہ نظر آرہا تھا، "گھر گھر ترنگا ہر گھر ترنگا” اس پر عمل کرنے میں ہاتھ میں ترنگا لہرائے اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرا گھر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے، میرے خوابوں پر بلڈوزر چل چکا ہے، میں ترنگا تھامے پریشان تھا، کیونکہ مجھے بھی اوروں کی طرح اپنے گھر کی چھت پر ترنگا لہرانا تھا، لیکن بلڈوزر کی سیاست نے میرے گھر کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا تھا، میں ترنگا تھامے اس کو لہرانے کی فکر میں کھڑا رہا، مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا سوائے مٹی کے ڈھیر کے، تو میں ترنگا کہاں لہراتا،
اب اس مٹی کے ڈھیر پر ترنگا لہرا کر میں ترنگے کی توہین تو نہیں کرسکتا تھا!!
میں ترنگا تھامے جہانگیر پوری دہلی کی جانب اس سوچ میں چل پڑا کہ وہاں اپنے کسی بھائی کے گھر پر ترنگا لہرا دوں گا۔ لیکن مجھے وہاں بھی ترنگا اپنے ہاتھوں ہی میں تھامے رکھنا پڑا، وہاں بھی بلڈوزر نے گھروں کو توڑ ڈالا تھا۔ مجھے ترنگا لہرانے کی فکر ہورہی تھی، گھر گھر ترنگا ہر گھر ترنگا، کی صدائیں مجھ میں گھر پر ترنگا لہرانے کی امنگ جگا رہی تھی۔ میں مجبور تھا لاچار و بے بس تھا، مجھے گھر کی چھت میسر نہیں ہورہی تھی، میں ترنگا تھامے یوپی کے کئی علاقوں میں پھرا لیکن جہاں بھی گیا بلڈوزر کی سیاست میرے ترنگے کی رکاوٹ بن گئی، میں جن گھروں پر ترنگا لہرانے کا سوچ رہا تھا ان پر بلڈوزر چل چکا تھا۔ میں یوپی سے ہوکر کھرگون مدھیہ پردیش بھی گیا، لیکن وہاں بھی بلڈوزر میرے ترنگے کی رکاوٹ بن گیا، میں ایک آخری امید لئے ترنگا تھامے میوات کی جانب چل پڑا۔ میوات پہنچا تو میں اپنے ترنگے کو لیکر پھر اداس ہوگیا، لہرانے پھڑکانے کی جتنی چھتیں میری سوچ میں تھی سب بلڈوزر کی زد میں آچکی تھی، بلڈوزر نے کئی گھروں کو مسمار کردیا تھا، مجھے ہر جگہ ملبہ اور مٹی کا ڈھیر ہی نظر آرہا تھا، میں اپنے ترنگے کو اس ملبے کی گر وغبار سے بچاتا ہوا دوڑ پڑا ” گھر گھر ترنگا” کے نعرے میرے کانوں پر ضربیں لگارہیں تھے، مگر مجھے کوئی چھت میسر نہیں ہورہی رہی تھی، جس گھر پر میں ترنگا لگانا چاہتا تھا وہ گھر بلڈوزر نے توڑ ڈالا تھا۔
میں اپنا ترنگا تھامے منی پور کی جانب چل پڑا میں ترنگے کو محفوظ جگہ فراہم کرنے کیلئے دوڑ رہا تھا، لیکن جہاں جاتا ناکامی و نامرادی میرے اور میرے ترنگے کو میسر ہوتی۔ منی پور کی پر فساد فضا، خون آلودہ ماحول، بارود کے دھوئیں سے میں اپنے ترنگے کو بچانے میں لگا تھا، تبھی ایک بوڑھے شخص پر میری نظر پڑی جو اپنا سر گھٹنوں میں رکھ کر رورہا تھا، میں اس کے قریب گیا رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا، کہ میں ایک فوجی تھا! میں نے کارگل میں جنگ لڑی ہے! بوڑھا کہنے لگا یہ ترنگا جو تم تھامے ہوئے ہو اس کی حفاظت کیلئے اس ملک کے تحفظ کیلئے، اس میں امن امان قائم کرنے کیلئے میں نے اپنا خون پسینہ کارگل جنگ میں بہایا ہے، لیکن آج جو میری آنکھوں نے دیکھا اس پر میں شرمندہ ہوں، جس وطن کیلئے ہم نے خون دیا اس میں ہماری بیٹیاں محفوظ نہیں ہے، میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا ہے کہ کس طرح کچھ درندے میری بیٹیوں کو سر عام برہنہ کر کے دوڑا رہیں تھے، یہ کہہ کر اس بوڑھے شخص کی ہچکیاں بڑھ گئی آواز گلے میں پھنس گئی اس کی نگاہیں میرے ہاتھ میں لہراتے ترنگے پر جم گئی، اس کے کانپتے ہاتھ اٹھے ترنگے کی جانب بڑھے، اس نے ایک زور دار آہ بھری گلے پر زور لگایا ترنگے کو بمشکل تھاما اور مجھ سے کہا بیٹا اب یہ تمھاری ذمہ داری ہے، اس کو اب بچالو۔۔ میں نے بے بس و لاچار اس بوڑھے فوجی کو دلاسہ دیا اور چل دیا، کیونکہ میرے پاس اس کو دینے کیلئے اور کچھ نہیں تھا۔
میں وہاں سے واپس لوٹا تو میرے ذہن میں کئی سوالات جنم لے رہےہیں تھے،
کہ اس بلڈوزر کی سیاست کے فروغ میں ہم کتنے قصوروار ہیں؟ ہمارے پاس اب کیا لائحہ عمل ہے کہ اس کے بعد بلڈوزر سے کوئی گھر نہ ٹوٹ پائے؟
ہماری صفوں میں موجود خلاء کو ہم کیسے پر کریں؟
بلڈوزر اور کب تک کتنے گھروں کو توڑے گا؟
اس کو روکنے رکوانے کی کونسی طاقت ہے؟ اس کا استعمال کیسے کرنا چاہیے؟
#یومِ_آزادی