"طلاق کے بعد کا پچھتاوا: رشتوں کی قدر نہ کرنے کی سزا”

شادی شدہ بھائی لازمی پڑھیں🤔

👇👇👇

"طلاق کے بعد کا پچھتاوا: رشتوں کی قدر نہ کرنے کی سزا”

.

.

.

.

.

جب نکاح خواں آئے اور میں اپنی بیوی کو طلاق دینے لگا تو میں خوش تھا کہ اب سب مسائل ختم ہو جائیں گے۔ جب اس نے مجھ سے پوچھا، "کیا آپ اپنے فیصلے پر پکے ہیں؟” تو میں نے فوراً جواب دیا، "ہاں، بالکل پکا ہوں۔”
میری بیوی خاموش بیٹھی سب کچھ برداشت کر رہی تھی، مجھے وہ بہت کمزور لگ رہی تھی۔ اس کے گھر والے اس کے ساتھ تھے، لیکن وہ اتنی کمزور تھی کہ ان کی موجودگی کا احساس نہیں کر سکتی تھی۔ جب میں نے اس کی آنکھوں میں شکست کی نظر دیکھی تو مجھے خوشی ہوئی کہ میں نے اپنا حق لے لیا اور اسے دکھا دیا کہ وہی ہمیں اس حال تک لے آئی ہے۔
چند منٹ بعد میں نے اسے طلاق دے دی۔ اُس دن میں اپنے بستر پر لیٹا اور محسوس کیا کہ دنیا کی سب مشکلات غائب ہو گئی ہیں۔ میں آزاد ہو گیا، دل بھر کے کھانا کھایا۔ تین سال تک میں مسائل، سر درد اور اختلافات کا سامنا کر رہا تھا۔
"آخر کار” میں سکون میں آگیا، نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور وہ خوش تھے کہ میں نے اس سے نجات پا لی۔
میں نے اپنی زندگی دوبارہ آزادانہ طور پر جینے کا آغاز کیا۔
لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا اور چیزیں میری توقعات کے خلاف ہو گئیں۔ ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا۔ ہر رات کے آخر میں وہ اپنے کمرے میں بند ہو جاتے اور میں اپنے کمرے میں اکیلا، کمزور اور تنہا رہ جاتا۔
میرے گھر والوں کا ساتھ کہاں گیا؟
میرے بھائی جو ہمیشہ میری بیوی کے بارے میں باتیں کرتے تھے، انہوں نے میری طرف دھیان دینا چھوڑ دیا۔ میری ماں جو یہ دکھانے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ میری بیوی سے زیادہ محبت کرنے والی ہے، اس نے بھی وہی محبت اور توجہ دینا چھوڑ دی۔ وہ اپنی پرانی حالت میں واپس آ گئی۔
جو لوگ مجھے اُس پر بھڑکاتے تھے، وہ بھی کال کرنا چھوڑ چکے تھے۔ جب میں عید کی رات بیمار ہوا اور بخار چڑھ گیا، میں نے اپنے بھائی کو فون کیا، اس نے میری آواز سے نہیں پہچانا کہ میں بیمار ہوں، حالانکہ میری آواز بخار کی وجہ سے صاف نہیں تھی۔ مجھے ایک دفعہ یاد آیا کہ میری بیوی نے مجھے ایک دن باہر جاتے ہوئے فون کیا اور پوچھا، "آپ خیریت سے ہیں؟” وہ بے وجہ پریشان تھی۔ اس وقت مجھے کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور میں نے ہسپتال میں ڈرپ لگوائی تھی بغیر اسے بتائے۔
کہاں ہے وہ سکون جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا؟ کیوں کوئی میری زندگی کی خبریں جاننے کا خواہشمند نہیں رہا جیسے وہ میری بیوی کے ہوتے ہوئے تھے؟
اگر وہ سب شروع سے ہی اتنے دور رہتے تو ہمارے درمیان اتنے مسائل نہ ہوتے۔
جب میں نے کہا کہ میں اپنی بیوی کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں، تو سب نے مجھے روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے پرانے مسائل اٹھائے، اس کی غلطیاں گنوائیں، اس کے بارے میں ایسی باتیں کیں جو حقیقت میں نہیں تھیں اور میں نے ان سب پر یقین کیا۔ انہوں نے بہت نجی معاملات میں مداخلت کی، جو انہیں بالکل نہیں کرنے چاہیے تھے۔
انہوں نے میری زندگی کی تفصیلات میں اتنی مداخلت کی کہ ان کا اندر ہونا یا حتی کہ دروازے پر ہونا بھی مناسب نہیں تھا۔
مجھے یہ سب دیر سے سمجھ آیا جب میں نے اپنی زندگی میں ایک وقفہ لیا۔ جب میری بیوی دور ہو گئی، تو مجھے پتہ چلا کہ وہ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ ہمارا گھر نہ گرے اور میں اس کا ہاتھ چھوڑ رہا تھا۔
وہ ہماری نجی باتوں کو چھپا رہی تھی اور میں سب کچھ دوسروں کے سامنے کھول رہا تھا۔
جب میں نے افسوس کے ساتھ اسے واپس لانے کی کوشش کی، تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ اس نے کہا، "میں سکون میں ہوں۔” یہ جملہ مجھے کہنا چاہیے تھا۔ میں نے بہت کوشش کی، لیکن ہر بار وہ ضد کرتی، جیسے وہ کسی محفوظ جگہ پر ہو اور وہاں سے نکلنے سے ڈرتی ہو کہ کہیں واپس نہ جا سکے۔
اس نے صاف الفاظ میں کہا، "کبھی بھی مجھے میرے حقوق کا احساس نہیں ہوا، حتی کہ تمہاری بیوی ہونے کا حق بھی میرے پاس نہیں تھا۔”
اور آخر کار، میں ہی واحد ہارا ہوا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ میں صحیح ہوں اور میرے آس پاس کے لوگ میرے خیر خواہ ہیں۔
لیکن حقیقت میں وہ خیرخواہ نہیں تھے اور میں بھی غلط اور غافل تھا…
اللہ پاک ہم سب کو رشتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top