بابری مسجد ہم نہیں بھولے ہیں!!!
.
.
6 دسمبر ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ ترین دن ہے جو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی بھولنا چاہئے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی اس سیاہ تاریخ سے باخبر رکھنا ہماری ذمہ داری میں شامل ہونا چاہیے ورنہ گردش زمانہ کی گرد و غبار تلے سلطنت مغلیہ کی عظیم نشانی، تاریخ ہند کا ایک ناقابل فراموش باب "بابری مسجد اور اس میں صبح و شام دی گئی اذانوں کی گونج اور محراب و منبر سے بلند ہونے والی توحید و رسالت کی صدائیں دب کر رہ جائیں گی۔ جبکہ مساجد کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر دو اور دو چار کی طرح بالکل واضح ہے، اور جمہور امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس مقام پر ایک مرتبہ مسجد تعمیر کر دی گئی، وہ تاقیامت مسجد ہی رہے گی
.
.
آج کی نوجوان نسل جو سنہ 2000 کے اس پاس یا اس کے بعد پیدا ہوتی ہے، وہ تصور بھی نہیں کر سکتی کہ ان کے والدین کی جوانی کے دور میں ایل کے اڈوانی کا سیاسی کردار کیا تھا؟ اگر صاف لفظوں میں کہا جائے تو انہوں نے پورے ملک میں فرقہ پرستی کا ایسا زہر گھولا جس میں کئی ایسے اقدامات شامل ہیں جن کی وجہ سے ملک کے مسلمانوں کا لہو اور فرقہ وارانہ فسادات کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اڈوانی جی حاشیہ پر ہیں لیکن اپنی اس گھناؤنے یاترا اور ہندو مسلم منافرت کی بدولت ایل کے اڈوانی جی نے رام جنم بھومی کی تحریک عروج پر پہنچا دی تھی جس کی بنا پر بی جے پی کے سب سے قد آور رہنماء بن کر ابھرے تھے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو بتانا ہوگا کہ 16 ویں صدی عیسوی میں ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں رام کوٹ پہاڑی پر تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ بابر کے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 1528ء میں تعمیر کرائی تھی۔ جو ریاست اتر پردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی ۔ جہاں شروع ہی سے نماز – پنج گانہ اور نماز جمعہ ہوا کرتے تھے ، عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ 1858ء سے 1870 ء تک اس مسجد کے امام وخطیب مولانا محمد اصغر تھے۔ سنہ 1870ء تا 1900ء کی درمیانی مدت میں مولوی عبدالرشید نے امامت کے فرائض انجام دیے، 1901ء سے 1930ء کے عرصے میں یہ خدمت مولوی عبد القادر کے سپرد رہی، اور 1930ء سے 1939 ء مسجد کے قرق ہونے کی تاریخ تک مولوی عبد الغفار کی اقتداء میں مسلمان اس مسجد میں نماز پنج وقتہ اور جمعہ ادا کرتے تھے۔
.
.
آئیے بابری مسجد کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالتے جائیں.
1528 – ایودھیا میں میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کرائی۔
1949 – خفیہ طور سے بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی گئیں ۔
1959 – نرموہی اکھاڑے کی طرف سے متنازعہ مقام کے تعلق سے ٹرانسفر کی عرضی داخل کی۔
بعد ازیں 1961 میں یوپی سنی سنٹرل بورڈ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔
1986 متنازعہ مقام کو ہندو عقیدت مندوں کے لئے کھول دیا گیا۔ اسی سال بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل ہوئی۔
1990 – لال کرشن اڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا کا آغاز کیا، جس میں ایک ٹویوٹا گاڑی کو رتھ کی شکل دی گئی تھی۔ اڈوانی کی رتھ یاترا ملک کی 8 ریاستوں سے گزری یہ یاترا. سومناتھ سے نکل کر ایودھیا جانا طے پائی تھی۔ یاترا جس شہر سے بھی گزرتی وہاں بی جے پی اور سنگھ کے کارکنان گھنٹیاں بجا کر تالیاں پیٹ کر اور جذباتی نعرے لگا کر اسکا استقبال کرتے۔ جذباتی ہندو، رتھ کی مٹی سے تلک کرتے اور جذبات کے اظہار کے طور پرخون کا عطیہ پیش کرتے۔ یاترا نے متعدد مقامات پر فسادات بھڑکائے جس سے ہزاروں معصوم لوگوں کی جانیں گئیں۔ اس لیے اسے خونی یاترا بھی کہا جاتا ہے۔ رام چندرگوبا نے اسے مذہبی، متشدد بھڑکاؤ اور مسلم مخالف یاترا قرار دیا۔ اڈوانی کی تقریر میں بابر اور رام ان ہی دو ناموں کے گرد گھومتیں ۔ اڈوانی جہاں بھی جاتے انہیں ہتھیار تحفے میں دیے جاتے ۔ اڈوانی کو تحفے میں اتنے ہتھیار ملے کہ پرمود مہاجن نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان ہتھیاروں کی مدد سے ہم ایک دن میں رام جنم بھومی آزاد کروا سکتے ہیں۔ آخر کار 23 اگست کو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے اڈوانی کی یاترا کو بہار کے سمستی پور میں روکا اور اڈوانی کو حراست میں لے لیا۔ اس طرح اس خونی یاترا کا خاتمہ ہوا۔
1991 ۔ رتھ یاترا کی لہر سے بی جے پی اتر پردیش کے اقتدار میں آگئی۔ اسی سال مندر تعمیر کے لئے ملک بھر سے اینٹیں بھیجی گئیں۔
6 دسمبر 1992۔ ایودھیا پہنچ کر ہزاروں کار سیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد جگہ جگہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ پولس نے لاٹھی چارج کیا اور فائرنگ میں کئی کی موت ہوگئی۔ جلد بازی میں ایک عارضی رام مندر بنا دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا۔
16 دسمبر 1992 – بابری مسجد انہدام کے لئے ڈمہ دار صورت حال کی جانچ کے لئے ایم ایس لبراہن کمیشن تشکیل دی گئی۔
1994 – الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
4 مئی 2001 خصوصی حج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
یکم جنوری 2002۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایک ایودھیا کمیشن کا قیام کیا جس کا مقصد تنازعہ کو حل کرنا اور ہندو و مسلمانوں سے بات کرنا تھا۔
یکم اپریل 2002 – ایودھیا کے متنازعہ مقام پر مالکانہ حق کے تعلق سے الہ آباد ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا۔