ICC ایونٹس میں پاکستان 21 میں سے صرف 4 بار بھارت کو ہرا سکا!
عقل مفلوج ہے ، دل گھبراتا ہے ۔ ۔ ۔ Icc – آج تک اس مسئلے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے ، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں مگر جب آئی سی سی کے مقابلے میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو ان کھلاڑیوں کو کیا ہو جاتا ہے ۔
نان ورلڈ کپ فکسچر میں ان سے چھکے بھی لگتے ہیں اور یہی وکٹیں بھی اڑاتے ہیں ، لیکن ادھر میچ کے ساتھ آئی سی سی اور ورلڈ کپ کا وقت آجائے تو اکثر چھکے بھی چھوٹ جاتے ہیں اور طوطے بھی اڑ جاتے ہیں ۔
پچاس اوورز کی محدود کرکٹ میں دونوں ٹیموں کا ایک سو پینتیس بار ٹاکرا ہوا ہے اور پانچ بے نتیجہ میچز کو نکال کر، پاکستان کا پلہ بھاری ہی رہا ہے جس نے ایک سو تیس میں سے تہتر مرتبہ فتح سمیٹی ہے ۔
Icc (آئی سی سی) کے ٹورنامنٹ کے اکیس میچوں میں (بشمول ٹی ٹوئنٹی) یہی ٹیم صرف چار میچ جیت سکی ہے ۔ تھوڑا ماضی میں جا کر دیکھیں تو کوئی نہ کوئی سرامل تو سکتا ہے جہاں سے خرابی کا پتہ چلے ۔
بی بی سی اردو کے لیے صحافی محمد صہیب نے ان آئی سی سی میچوں کی ہار پر سابق ٹیسٹ کپتان اور مایہ ناز وکٹ کیپر ، معین خان سے کچھ گفت و شنید بھی کی ہے ۔
معین خان 1992 میں پاکستان کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے اور 1999 کے عالمی کپ کے بہترین وکٹ کیپر بھی قرار پائے تھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ جب دو ٹیمیں کھیلتی ہیں تو ایک ہی جیتی ہے مگر ایسی مسابقت میں جو چیز آپ کے اعصاب کو مجروح کرتی ہے وہ دباؤ ہوتا ہے ۔Icc (آئی سی سی ) ورلڈ کپ کے میچز میں صرف پریشر ہوتا ہے اور کوئی بات نہیں ۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کا میچ ہمیشہ پریشر والا ہوتا ہے ۔ سنہ بانوے کی ٹیم کو لے لیں ، اس ٹیم کا ہر پلئیر ایک میچ ونر ہوتا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ سڈنی میں انڈیا سے پہلی بار کسی ورلڈ کپ کا میچ کھیل رہے تھے تو دوسوسترہ کے تعاقب میں وکٹیں وقفے وقفے سے گر رہی تھیں اور کہیں بھی ایک بڑی پارٹنر شپ نہیں لگ سکی تھی جس کے باعث ہم وہ میچ ہار گئے ۔
معین خان 1999 کے عالمی کپ میں اپنی زندگی کی بہترین فارم میں تھے ، دھواں دھار بیٹنگ میں یا تو جنوبی افریقہ کے لانس کلوز نر کا بلا چنگھاڑ رہا تھا یا معین خان کا ۔ جنوبی افریقہ ، آسٹریلیا، انڈیا ہو یا سکاٹ لینڈ ، وہ وکٹ کے پیچھے اور آگے بھی بہترین کار کردگی دکھا رہے تھے ۔
ایک سو دس کے سٹرائیک ریٹ سے انھوں نے دو سو بیالیس رنز سکور کیے تھے ۔ انڈیا کے خلاف میچ میں جب وہ اونچا شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے تو اس وقت پاکستان کو سولہ اوورز میں ایک سو چار رنز درکار تھے ۔
معین خان اس میچ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 99 میں مانچسٹر میں بھی ہم ہار گئے تھے ، بڑا کلوز میچ ہوا تھا ، بڑی کوشش کی تھی ہم نے ۔ دلیپ میں آؤٹ ہوا تھا اس وقت ہم میچ جیت رہے تھے ۔
( Icc) معین خان کے مطابق آئی پی ایل نے انڈیا کو بدل دیا ہے ۔ وہ پریشر کرکٹ ہے جس میں ہر میچ میں سٹیڈیم بھرا ہوتا ہے ، کھلاڑی کو فوکس کرنے میں مشکل ہوتی ہے کیونکہ کراؤڈ کا شور ہوتا ہے لیکن وہ اس کے عادی ہو گئے ۔ انھوں نے دس بارہ سالوں میں دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی ہے جس سے فئیر فیکٹر نکل گیا ہے ۔ ہم اپنے آپ کو اعصابی طور پر مضبوط کہتے ہیں لیکن اب وہ زیادہ مضبوط ہیں ۔
( Icc) پاکستان کے سابق کپتان آصف اقبال کا کہنا تھا کہ انڈیا کا فرسٹ کلاس کرکٹ کا سسٹم ہے ۔ جو نیئر سٹیٹ لیول ہے ، سینیئر سٹیٹ لیول ہے ، مقامی ٹرافیز ہیں جیسے کہ رنجی ، دلیپ وغیرہ جہاں سے تسلسل کے ساتھ اچھے کھلاڑی نکلتے ہیں ۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ کی وجہ سے بہت سارے والدین بچوں کو کرکٹ اکیڈ میز بھیجتے ہیں کیونکہ اس سے زندگی بن سکتی ہے ۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ ان کے یہاں نکھرا ہوا ٹیلنٹ نظر آتا ہے ۔
( Icc) سابق وکٹ کیپر کامران اکمل پاکستان اور انڈیا میں ڈومیسٹک کرکٹ کے فرق پر کھل کر بولے ۔
انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں انھوں نے اپنے سسٹم کو مضبوط کیا ہے اور اپنے نوجوان کھلاڑیوں کوٹی ٹوئنٹی کے پیچھے نہیں لگایا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کو اہمیت دی ۔ جب تک بندہ لمبی کرکٹ نہیں کھیلے گا ، ٹمپر امنٹ نہیں بنے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ جب تک اسے پریشر ہینڈل کرنا نہیں آئے گا وہ کیسے کامیاب ہو گا ؟ ہم لوگوں نے اپنے ڈومیسٹک سسٹم کو نظر انداز کیا۔ یہاں موسم کی طرح تو سسٹم بدل دیتے ہیں ۔ ہم اس لیے کھیل گئے کہ انڈر فضٹین اور انڈر نائنٹین کے دھکے کھا کر آئے تھے ، اب تو صرف تجربے ہو رہے ہیں ۔
سرفراز احمد ، سابق ٹیسٹ کپتان اور پاکستان کو واحد چیمپئنز ٹرافی جتوانے والے ، کامران اکمل کی طرح وہ بھی انڈر نائنٹین کی پیداوار تھے ۔
انھوں نے سنہ دو ہزار چھ میں پاکستان کو آئی سی سی انڈر نائنٹین ورلڈ کپ جتوایا اور سینئیر ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے دو ہزار سترہ میں چیمپئنز ٹرافی بھی جتوائی ۔
جب کامران اکمل سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں دکھائی گئی کار کردگی دہر اسکتا ہے تو وہ زیادہ پر امید نظر نہ آئے۔
( Icc) انھوں نے کہا کہ اس بار ٹرافی جیتنا بہت مشکل ہے ۔ وہ آٹھ سال پہلے کی کار کردگی دہرائی نہیں جا سکتی ۔ اُس میچ میں ٹاپ کو الٹی بالنگ تھی ، ابھی ویسا کوئی بولر نہیں جس کی دھاک ہو۔ دنیا بھر کی ٹیمیں سال ڈیڑھ پہلے تیار کی جاتی ہیں ، ہمارا آخری میچ تک کمبینیشن سیٹ ہو رہا ہوتا ہے۔ در انھوں نے مزید کہا کہ ہم لوگ سوچتے نہیں اور شارٹ کٹ راستے سے سب چلاتے ہیں ۔ اور ہماری ٹیم میں اتحاد نہیں ہے ۔ آپس کے اختلافات بہت ہیں ۔
( Icc) آصف اقبال کی رائے کچھ اور ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے میں کوئی بھی ٹیم کسی بھی ٹورنامنٹ میں جاتی ہے تو وہ فیورٹ نہیں ہوتی ۔ اگر آپ کا دن اچھا رہا اور ایک یا دو کھلاڑی کلک کر گئے تو میچ کا نتیجہ بدل سکتا ہے ۔ چیمپینز ٹرافی کے فائنل کے بعد سے اب تک پونے آٹھ سال ہونے کو ہیں ، پاکستان کی ٹیم پچاس اوورز کے کسی میچ میں انڈیا کو شکست نہیں دے سکی ہے ۔
دو ہزار سیکس میں ہی پاکستان کو ایشیا کپ کے کولمبو میں کھیلے گئے میچ میں دو سو اٹھائیس رنز سے شکست ہوئی تھی جبکہ انڈیا میں کھیلے جانے والے عالمی کپ میں سات وکٹوں سے ۔
Icc کے مطابق اس بار پاکستان کی قیادت سرفراز کی طرح ایک وکٹ کیپر کے ہاتھ میں ہے ۔ ان دونوں روایتی حریفوں کے میچز اب بھلے کم ہو گئے ہوں ، اُن میں ماضی کی طرح وہ جذباتیت نہ ہو، جو لوگوں کوئی وی سے چپکا کر رکھتی تھی ، شاید ان میچوں میں وہ کشش باقی نہ رہی ہو ، جو دیکھنے والوں کو سجدہ ریز کر دیتی تھی ، تقاریب چھڑوا دیتی تھی ، یا شادیوں کی تاریخ کو آگے بڑھوا دیتی تھی ۔ لیکن بہر حال اب بھی اس میچ کی کشش اپنی جگہ موجود ہے ۔
دیکھتے ہیں کہ دل اور دماغ کی اس لڑائی میں جیت کس کی ہوگی کیونکہ اب انڈیا وہ کرکٹ کھیلتی ہے جو کبھی ہم کھیلتے تھے ، اور ہم ویسی، جیسے ان سے منسوب تھی ۔