طالبان دور میں افیون کی کاشت میں 95 فیصد کمی : امریکی رپورٹ
.
.
.
.
امریکہ کے افغانستان کے حالات پر نظر رکھنے والے ادارے سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار / SIGAR) نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2023 میں پچھلے سالوں کے مقابلے میں افغانستان میں افیون یا پوست کی کاشت میں
95 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔
سیگار کی جانب سے افغانستان کے حالات پر ہر سہ ماہی رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس میں مختلف شعبوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اسی رپورٹ کے مطابق اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکہ نے 20 سالوں میں منشیات کی روک تھام پر تقریباً نو ارب ڈالر لگائے ، لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے ۔ تاہم طالبان نے کم عرصے میں اس پر قابو پالیا ہے ۔
افغانستان میں افیون کی موجودگی 18 ویں صدی میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی تھی، لیکن 1970 کے بعد پیداوار میں اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔ سیگار کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ افغان طالبان کا افیون کی آمدنی پر انحصار بھی رہا ہے ،
تاہم ماضی میں بھی انہوں نے مذہبی بنیاد پر اس پر پابندی عائد کی تھی ۔ افغان طالبان نے اپنے پہلے دور حکومت میں 1996 میں پوست کی کاشت پر پابندی
عائد کی تھی، لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے ۔
اس کے بعد طالبان نے پانچ مرتبہ مختلف مواقع پر پابندی لگائی ، لیکن 2000 میں پابندی لگنے کے بعد افیون کی کاشت 82 ہزار ایکڑ زمین سے کم ہو کر آٹھ ہزار ایکڑ تک رہ گئی تھی۔
امریکہ کیوں منشیات کی روک تھام میں ناکام رہا؟ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے کہ 2001 سے 2021 تک نوارب ڈالر لگانے کے باوجود امریکہ منشیات کی روک تھام میں کیوں ناکام رہا۔
وجوہات میں لکھا گیا ہے کہ پابندی کے بعد مقامی آبادی کی بین الاقوامی کمیونٹی سے شکایتیں بڑھ گئیں اور اس پابندی سے اس وقت پرائیویٹ ملیشیا، سیاستدان، لینڈ لارڈز اور افغان سکیورٹی فورسز نے فائدہ اٹھایا۔ دوسری وجہ رپورٹ کے مطابق یہ تھی کہ اس وقت ایک غلط بیا نیہ سامنے آیا تھا کہ طالبان کی 60 فیصد آمدنی افیون سے آتی ہے اور اسی بنیاد پر امریکہ پالیسی بناتا تھا، جس کا نقصان یہ ہوا کہ عوام زیادہ تر طالبان کے قریب ہو گئے کیونکہ امریکی ہیروئن کے لیبارٹریز کو بموں سے اڑاتے تھے اور زبردستی پوست کی کاشت تلف کرتے تھے۔
طالبان کی جانب سے 2022 میں پابندی افغان طالبان کی جانب سے نگران حکومت قائم کرنے کے بعد طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی لگائی اور اس کے خلاف افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ
نے اسلامی حکم بھی جاری کیا۔
اسلامی حکم میں بتایا گیا تھا کہ پوست کی کاشت پر مکمل پابندی ہوگی اور کاشت کرنے والوں کو اسلامی شریعت کے مطابق سزادی جائے گی ۔
تاہم، 2021 میں پابندی کے بعد 2022 میں پوست کی کاشت میں 32 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا جبکہ پوست کی قیمتوں میں 300 فیصد اضافہ ہوا تھا اور کاشت کاروں نے افیون کو ذخیرہ کرنا بھی شروع کیا۔
اس کے بعد رپورٹ کے مطابق 2023 میں افیون کی کاشت میں 85 فیصد کمی آئی ، جبکہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات کنٹرول کے مطابق کاشت میں 95 فیصد کمی آئی لیکن تجارت جاری رہی کیونکہ بعض کاشت کاروں نے افیون کا سٹاک رکھا ہوا تھا۔
کاشت میں کمی سے قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ رپورٹ کے مطابق مئی 2022 میں فی کلو افیون کی قیمت تقریباً 44 ہزار روپے تھی، لیکن مئی 2023 میں یہ قیمت تقریباً 80 ہزار فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔