لڑکی ، فیس بک اور دہلی ریلوے اسٹیشن
.
.
.
.
وہ میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ میں ٹرین میں داخل ہوا، ایک اچٹتی ہوئی نگاہ اس پر ڈال کر اپنی سیٹ پر خاموشی سے بیٹھ گیا ۔ اس نے لال سلوار اور ہرے رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی۔ جس پر زری کے لال لال پھول کڑھے ہوئے تھے ۔ ایک کالا دوپٹہ جس کے دونوں سرے پر ایک سنہرا جھالر لٹک رہا تھا جو باریک موتیوں سے پرویا ہوا تھا جو اسکے گندمی چھرے پر اچھا لگ رہا تھا۔ عمر کوئی اٹھارہ ہمیں برس رہی ہوگی ۔ ہاتھ میں ایک بڑا موبائیل ساتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ جسے اس نے کھڑکی کی طرف رکھ چھوڑا تھا ۔ میں اپنے سفر کو بارہا صعوبتوں سے گھرا پایا ہے جہاں وقت کی سوئی رک سی جاتی ہے لیکن آج پہلا اتفاق تھا کہ ایک کہانی جسکی ابتدا نے مجھے انتہا تک پہنچنے کی جلدی میں وقت کو ایک دم سے تیز تر کر دیا تھا۔ میں کہانی کے تجس سے نکل نہیں پا رہاتھا۔ بیا نیہ کافی عمدہ تھا۔ منظر نگاری بھی خوب تھی۔ مجھے بس اختتام کو جاننے کی جستجو نے پریشان کر رکھا تھا۔ اس نے اپنے بیگ کا چین کھولا ، سم کھولنے والا پن ہاتھ میں لیا ، سم کا سلاٹ باہر نکالا اور پرانے سم کو بیگ میں رکھتے ہی نیا سم لگا دیا۔ ٹنگ ٹنگ کی صدا کیساتھ ہی چند میسیج اسکی اسکرین پر نمودار ہوئے جسے غور سے پڑھنے کے بعد مسرت و شادمانی کی چند خفیف لکیر میں اس کے چہرے سے ظاہر ہوئیں ۔ تبھی کھڑکی سے آئی ہوئی ہوا کے تیز جھونکے نے میری کہانی کے کئی اور اق کو یک بیک ہی پلٹ کر آغاز سے انجام کی جانب ایک سبک رفتار گھوڑے کی مانند سفر شروع کر دیا۔
بھی ایک لمحے کو چہرے پر خوشی و انبساط کے آثار نمایاں ہوتے تو اچانک ہی اداسی و پشیمانی سے چہرہ خسک ہو جا تا تھا ۔ ظاہر شریف گھر کی پڑھی لکھی لڑکی معلوم ہوتی تھی۔ شاید وقت اور زمانے کی گردش نے کسی عیار اور مکار کے دام فریب میں گرفتار کر دیا تھا۔ تبھی ایک بلکے سے بچکولے کیساتھ ہی ٹرین چل پڑی ۔ میں نے باہر کی جانب نگاہ دوڑائی ۔ ٹرین آہستہ آہستہ اسٹیشن پر رینگ رہی تھی ۔
تھوڑی بہت دیر بعد بیگ سے ایک پرچی نکال کر اس پر لکھے نمبر کو اپنے موبائیل سے ڈائل کرنے لگی۔ کئی بار کی جستجو و کوشش کے بعد مایوسی و نا امیدی نے شفق کی سرخی کی مانند فکر و تردد کی لالی کو اس کے گالوں پر بکھیر دیا تھا۔ میں ابتک اپنی کہانی کے کئی اوراق پڑھ چکا تھا۔ جس کا تجس ابن صفی کی کھلگ کہانیوں سے مشابہ تھی ۔ میں سفر میں ہم سفروں سے بات چیت کرنے کے بہانے ڈھونڈھنے میں بڑا شوخ واقع ہوا ہوں ۔ کوئی پریشانی تو نہیں ؟ اگر آپکو کہیں کال کرنی ہے تو میرا فون استعمال کر سکتی ہیں ؟ آپ نے. پرانا سم نکال کر نیا سم ڈال لیا ، ایسا کیوں ؟
اس نے میرے چہرے کو بغور دیکھا اور مسکرا کر خاموش ہو گئی ۔ شاید اسے میرا سوال پسند نہ آیا تھا۔ میں بھی خاموش رہا۔ اس نے دوبارہ نمبر لگایا لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ میں نے پر اعتماد لہجے میں کہا اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں ؟ وہ ہاں کہتے ہوئے جھجھک سی گئی ۔ میں نے کہا کسی سے پیار کرتی ہو، اور گھر سے بھاگ کر اس کے پاس جارہی ہو؟ اس نے حیرت سے میری جانب دیکھا اور زیر لب مسکرائی اور شرم کے مارے دوپٹے کو درست کرتے ہوئے کہنے لگی ہاں ، ایسا ہی ہے ۔
میری کہانی کے چند اوراق کو دیمکوں نے چاٹ لیا تھا اور میری بوسیدہ کتاب میں اوپر سے نیچے کی جانب ایک لکیر بھی ڈالی تھی جس سے چند الفاظ دریا برد ہو گئے تھے جس سے جملے کی ساخت کو سمجھنے میں دشواری پیدا ہو رہی تھی۔ میں نے کتاب بند کر دی ۔
استفسار کرنے پر اس نے کہا ۔ فیس بک سے ۔ اوہ فیس بک ! میرے دل سے ایک ہوک سی نکلی ۔ درد سے سینہ تنگ سا ہو گیا ۔ میں ایک لمبی سرد آہ بھر کر خاموش ہو گیا ۔
اس نے میرے چہرے پر ایک مشکوک بھری نگاہ دوڑائی اور کہا فیس بک میں کیا مسئلہ ہے ؟ پہلے لوگ آس پاس کے لوگوں کو ہی جان پاتے تھے ؟ اب دور دراز کے لوگوں سے بھی یہ دوستی کا ایک بہترین ذریعہ ہے؟ کیا خیال ہے آپ کا؟ اس سوالیہ جملے نے مجھے کافی متعجب اور حیران کر دیا تھا۔ میں چند لمحے میں ہی بیک وقت کئی طرح کے سوالات سے جھوجھ رہا تھا۔ ایک معصوم دماغ کو اپنی گرفت میں لینے والے شاطر دماغ لڑکوں کے بارے میں سوچکر لڑکی کی کم عقلی اور کچی عمر پر میرے دل کا ٹمٹماتا ہوا چراغ ٹرین کی رفتار کا اچانک ہی کم ہونے والی جنبش سے بجھ سا گیا ۔ میں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا، کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں ؟ آپکو قطعی اسکی ضرورت نہیں ! اسکے جواب میں تعلمی تھی۔ میں نے اصرار کیا تو اس نے کہا شگفتہ ایک فرضی نام ہی سمجھ لیجئے ۔ میں نے کہا آپ کا سفر کہاں تک ہے ؟ اس نے خاموشی اختیار کی۔ دوبارہ پوچھنے پر کاٹرین تو نئی دہلی سے آگے جائیگی ۔ آپ کو اتنی تفصیل جان کر کیا کرنا ہے ؟ میرے دوست نے مجھے راستے میں کسی اجنبی مسافر سے بات چیت کرنے اور نام و پتہ بتانے سے منع کیا ہے ۔ میرے منھ سے نکلا، بڑا چالاک اور شاطر ہے آپ کا دوست۔ یہ سنکر اس نے منھ بنا لیا۔ اور پانی کی بوتل کھولتے ہی کہنے لگی ۔ پانی لیں گے آپ ؟ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ قدرے توقف کے بعد میں نے کہا ۔ کافی اطمینان جھلک رہا ہے آپ کے چہرے پر ؟ میں نے کسی بھاگنے والے کے چہرے پر آجتک اتنی بے فکری اور سکون پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ وہ خوش ہوئی اور کہنے لگی ۔ اس نے کہا تھا جب گھر سے نکلنا ماں باپ بھائی بہن اور اپنے گھر کے بارے میں بالکل بھی نہیں سوچنا صرف اور صرف میرے اور اپنے بارے میں سوچنا اور منزل پر نگاہ رکھنا ۔ میں نے کہا اچھا تو تمہارا واسطہ ایک مکار اور عیار آدمی سے پڑا ہے ۔ اس نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ لیکن ابتک وہ کافی گھل مل گئی تھی اس لیے برا نہیں مانا۔ میں نے پوچھا تمہیں عشق کا مطلب پتہ ہے ؟ عشق کیا ہوتا ہے ؟ اس نے میرے چہرے پر ایک تجسس بھری نگاہ ڈالی اور کہا ، عشق مطلب پیار محبت اور کیا ؟ ہاں ، تم نے صحیح کہا۔ لیکن عشق کیا نہیں جاتا، ہو جاتا ہے ۔ زندگی انسان کو کبھی ایسے دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے کہ انسان دل کے ہاتھوں مجبور محض ہو جاتا ہے ۔ لیکن عاشق بھی علم نہیں کرتا بلکہ ظلم سہتا ہے ۔ عاشق کسی کی بے عزتی نہیں کرتا بلکہ ذلت برداشت کرتا ہے ۔ عشق وہ ہوتا ہے جس میں کوئی لالچ نہیں، کوئی چھل نہیں ، کوئی فریب نہیں، کوئی دعا نہیں ۔ عاشق چالاک نہیں ہوتا ، مکار نہیں ہو تا ۔ عاشق سودا نہیں کرتا ، عاشق عزت کرنا جانتا ہے ۔ وہ کبھی کسی کی بے عزتی کا سبب نہیں بنتا۔ اس نے بیچ میں ہی ٹوکتے ہوئے کہا۔ ہمارا دوست بھی سب کی عزت کرتا ہے اور وہ مجھ سے بے پناہ محبت بھی کرتا ہے۔
میں نے اپنی کتاب کا ایک اور صفحہ پلٹتے ہی پانی کی بوتل اسکے ہاتھ سے لیکر کئی گھونٹ اپنے خسک گلے میں انڈیلتے ہوئے کہا اگر وہ سچا پیار کرنے والا ہوتا اور تم سے دلی محبت کر تا تورین سے تمہیں دہلی بلانے کی بجائے ، اسے خود تمہارے ماں باپ کے گھر آنا چاہیے تھا اور بہتر یہ ہوتا کہ وہ اپنے امی ابو کیساتھ تمہارے یہاں آتا اور تمہارے والدین سے تمہارا رشتہ مانتا ۔ کیا تم نے کبھی اس سے پوچھنے کی زحمت گوارہ کی ؟ کہ اسکی بہن کو کوئی بھگا کر لے جائے تو اسے کیسا محسوس ہو گا ؟ اور اس کے ماں باپ کو کیسا احساس ہو گا ؟ اس نے تو پیار میں کوئی رشک لیا ہی نہیں ؟ سب کچھ تمہارے سر پر ڈال کر خود فری ہو گیا ؟ یہاں تک کہ تن تنہا ایک اکیلی لڑکی کو اتنی دور بلایا؟ یہ کیسا پیار ہے ؟ کیا اس میں تمہیں اپنی بیوقوفی نظر نہیں آتی؟ اسکے چہرے کا رنگ دھیرے دھیر سے بدل رہا تھا اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب چکی تھی ۔
تھوڑے سے وقفے میں ایک سچا عشق اور ایک فریبی و مکار عاشق کے تعلق سے میں نے ایک پوری تقریر اس کے گوش گزار کر دی ۔ اسکی بھنویں تن گئیں چہرے پر فخر کی لکیر میں صاف نظر آنے لگیں ۔ اس نے پانی کی آدھی بوتل اپنے گلے میں انڈیل لیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ۔ پیڑ پودے تیزی سے بھاگے جا رہے تھے وقت کی رفتار کی طرح ٹرین کے مد مقابل الٹی جانب کو ۔ اس نے اپنے موبائیل پر ایک نظر ڈالتے ہوئے وقت دیکھا اور موبائیل کو بیگ میں رکھ دیا۔
قدرے خاموشی کے بعد اس نے اپنے سر کو اوپر اٹھا یا بالوں میں انگلیاں پھیر کر الجھتے ہوئے بالوں کو درست کرتے ہوئے چوٹی کو ر بر سے کئی گرہ لگاتے ہوئے کس دیا۔ اف! لی ایک مبہم سی صدا کی ساتھ ہی اپنی آنکھیں اس نے میرے چہرے پر گاڑ دی ۔ آنکھیں اشکبار تھیں اور مزید کچھ جانے کی متلاشی تھیں ۔ میں نے نظریں نیچی کر لی ۔ وہ بد بدائی، چند سوالات جواب بھی متضاد رخ میں کھڑے تھے اور جواب کے منتظر تھے ؟
یہ گلی چوراہے کے لونڈے لپاڑے عاشق نہیں بلکہ جسم حاصل کرنے والے سوداگر ہیں جو کم سن معصوم بھولی بھالی لڑکیوں کا شکار کرتے ہیں اور آج تم انکی ایک شکار ہو۔ بیٹا ! ہم جس معاشرے میں جیتے اور رہتے ہیں یہ مردوں کا معاشرہ ہے ۔ اس میں لڑکے کے بھاگ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ؟ والدین کا لوگوں کے سوال پر بس اتنا کہنا ہی کافی ہوتا ہے۔ غصے میں گھر سے چلا گیا ہے۔ جب غصہ ٹھنڈا ہو گا اور ہوش ٹھکانے آئیں گے تو خود ہی واپس آجائیگا۔ لیکن لڑکی کے بھاگ جانے سے پورے خاندان کی عزت ملیا میٹ ہو جاتی ہے ۔
والدین اور پورے خاندان کے منحہ پر تالے لگ جاتے ہیں ۔ دنیا ترقی کے کتنے بھی منازل طے کرلے لڑکا اور لڑکی کا فرق ازل سے ہے اور ابد تک رہیگا اور اسے رہنا بھی چاہیے ۔ لڑکا فٹ پاتھ پر سو جاتا ہے ۔ کسی ہوٹل میں برتن مانجھ کر دو وقت کا کھانا کھا لیگا۔ کسی دکان میں کام کر کے گزارہ کر لیگا ۔ لیکن کیا لڑکی ایسا کر پائیگی ؟ ہر چیز کے عوض اس کے جسم کا سودا کیا جائیگا اور اسے نوچ لیا جائیگا ۔ امریکہ ہو یا لندن عورت ہر جگہ اکیلی اور تن تنہا غیر محفوظ ہے ؟ اسے مرد کا بازو ہی تحفظ عطا کرتا ہے۔
چاہے وہ اسکا باپ ہو؟ بھائی ہو؟ بیٹا ہو یا شوہر ؟ اس کے علاوہ کوئی نہیں ، کوئی بھی نہیں ؟ ایک عاشق کو ذمہ دار شوہر بنتے بنتے اور اپنا اعتماد ایک دوسرے پر بحال کرتے کرتے زندگی گزر جاتی ہے پھر بھی ایک دوسرے پر شک کی سوئی ہمیشہ گھومتی ہی رہتی ہے ۔ ایک بھاگی ہوئی عورت اپنے شوہر کو اپنی عزت اور شرافت کی پہچان کراتے کراتے پوری جوانی گزار دیتی ہے لیکن اس کے ذہن و حافظہ میں خدشہ آخر وقت تک بنا ہی رہتا ہے
وہ کسی خیال میں گم ہو گئی۔ زندگی کی بھول بھلیوں میں اچھے برے کو وقت سے پہلے سمجھنے اور پہچاننے کی جستجو نے اسے کافی حیران و پریشان کر دیا تھا ۔ جو اس کے چھرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ میں نے زیادہ بولنا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش ہو رہا ۔ دل ہی دل میں سوچنے لگا شاید کچھ زیادہ ہی بول گیا۔ مجھے اتنا نہیں بولنا چاہیے تھا۔ تھوڑے سے وقفے سے اس نے میری طرف دیکھا جیسے کچھ اور سمجھنا چاہتی ہو؟ کچھ اور جاننا چاہتی ہو؟ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ تمہارے دوست نے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا کہ جب تمہاری ماں کو پتہ چلے گا کہ تم گھر سے بھاگ چکی ہو تو اسکا کیا حال بنیگا ؟ وہ تو جیتے جی غیرت و ندامت سے مر جائیگی ؟ شرمندگی و پشیمانی سے زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ ہو جائیگی ؟ کئی کئی دن وہ کھانا نہیں کھا پائیگی ؟ اسکا وزن چند ہفتوں مہینوں میں گھٹ کر آدھا رہ جائیگا ؟ کیا ہو گا تمہارے باپ کا جب راستے چوراہے پر لوگ اس سے پوچھیں گے بھائی صاحب، بٹیا کا کچھ پتہ چلا ؟ کیا ہوگا تمہارے بھائیوں کا جب اسکے دوست اس سے بولیں گے ابتک بہن ملی یا نہیں ؟ کیا ہوگا تمہاری بہنوں کا جب اسکی سہیلیاں اس سے سوال کریں گی کیا بہن ابتک واپس نہیں آئی ؟ ایک بات یادرکھنا عورت اگر بھاگ کر شادی کر لے تو پوری زندگی معاشرہ اسے وہ عزت کبھی بھی نہیں دے پاتا جو ماں باپ بھائی بہن اور خاندان کی راضی خوشی اور مرضی کیساتھ ہوئی شادی سے عورت پاتی ہے ۔ وہ عمر کے آخری حصے تک بھی سماج میں ایک بھگوڑی کے نام سے ہی یاد کی جاتی ہے اور جانی پہچانی جاتی ہے ۔ اس کے بچے یہاں تک کہ اس کا شوہر بھی تاحیات رشتے داروں کی تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں ۔
ترین نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر لگ چکی تھی ۔ میں بہت دنوں بعد دہلی آیا تھا ۔ اب پہلے کی طرح کچھ بھی نہیں تھا ۔ سب کچھ بدل چکا تھا اور ساتھ ہی ساتھ شگفتہ بھی بدل چکی تھی ۔ اس نے دوبارہ پن نکالا، موبائیل کا سلاٹ کھولا، نئے سم کو توڑ کر پھینک دیا اور پرانے سم کو ڈالتے ہی میسج کی بھر مار نے اسے آبدیدہ کر دیا۔ تبھی ایک رنگ کیساتھ ہی اسکے پاپا کی کال آئی، شگفتہ نے روتے ہوئے کہا ساری پاپامجھے معاف کر دینا میں آرہی ہوں ۔ پھر اسکی ماں کی سسکیاں، آہیں و نالے ، گریہ و فریاد اور آہ و فغاں جسے میں بمشکل سن پایا۔