اسلامی تاریخ اپنے ہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتی یہ دنیا کی ہر کتابوں میں عیاں و بیاں ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لیکر آخری صحابہ تک تمام تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں تابعین تبع تابعین اور اسکے بعد علم و حکمت جرات و عزیمت کے باب میں ہر ایک کو گلے لگایا ہے۔
حضرت عمر کی جرات حضرت علی کی بہادری خالد بن ولید کی للکار عبیدہ بن جراح کی جواں مردی عمر بن عبدالعزیز کا عزم اور صلاح الدین ایوبی کے خوابوں کی تعبیر و حقیقت کو صفحہ ہستی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید کر دیا گیا ہے ۔
اسی تاریخ کا ایک اہم باب جسے دنیا صفحہ حقیقت پر رقم کر رہی ہے اور جس کا نام آئندہ دنوں میں عزت و شرف عزم و ہمت استقلال و بہادری جرات و عزیمت فاتح و کامیاب کمانڈر کی حیثیت سے تاریخ کے اوراق میں نمایاں ہوگا جب کبھی اسلامی جرنیل کا بیان ہوگا تو ایک نام پندرھویں صدی ہجری میں ابو عبیدہ "الناطق بإسم الأمة” کا ہوگا جس کی للکار نے باطل کے ایوانوں میں دہشت پیدا کر رکھی ہے۔
ابو عبیدہ یہ نام دنیا میں کافی مشہور و مقبول ہو رہا ہے عرب ہو کہ عجم ہو ہر جگہ اس کو پذیرائی مل رہی ہے عرب کے صحراء سے لیکر عجم کی گلیوں میں ہر جگہ بس ایک ہی لفظ زبان زد عام و خاص ہے ابو عبیدہ جی ہاں ابو عبیدہ جس کو دنیا حما۔س کے ترجمان کے نام سے یاد کرتی ہے ۔
یہ وہ شخص ہے جب زبان کھولتا ہے تو حق بولتا ہے اور سچ اسکی زبان سے ایسے ہی جاری ہے جیسے بلندی سے پانی نیچے کی طرف آ رہا ہو اور اس کا کہا ہوا بولا ہوا باطل پر بجلی بن کر گرتا ہے۔
نقاب کے پیچھے موجود دو آنکھوں سے ظاہر سے دنیا پر ظاہر ہوتا ہے اور انگلی کے اشارے سے باطل کے تمام خیالات کو تمام کوششوں کو اور تمام ارادوں کو خاک میں ملا کر روپوش ہو جاتا ہے ۔
خدا نے اس کی زبان پر حق کو جاری و ساری کر دیا ہے وہ بولتا ہے تو قرون اولی کے عبیدہ بن جراح یاد آ جاتے ہیں وہ جب تباہی کی داستان بیان کرتا ہے تو خالد بن ولید کی تاریخ نظر آتی ہے اسکی زبان پر صدیق کی صداقت نظر آتی ہے عمر و علی کی جرات دکھائی دیتی ہے صلاح الدین کا حوصلہ دکھائی دیتا ہے وہ موجودہ وقت کے مسلمانوں کی آبرو کا امین ہے وہ جہادی روح کو زندہ کرنے والا قائد ہے وہ بڑوں کا حوصلہ ہے نوجوانوں کا عشق ہے اور بچوں کی محبت ہے ۔
ابو عبیدہ کی کوئی بھی تصویر یا شخصیت سے پوری تاریخ خاموش ہے دنیا اسے بس دو آنکھ اور ایک ہاتھ کے اشارے سے جانتی ہے وہ بظاہر القسا۔م بر۔یگیڈز کا ترجمان ہے لیکن اس کی زبان سے امت کی ترجمانی ہو رہی ہے ۔
وہ کافر۔وں پر کاری ضرب لگاتا ہے اور انکو دہشت زدہ رکھتا ہے انکی نیند کو اڑا دیتا ہے اور اپنوں کو الفت و محبت کا پیغام دیتا ہے حوصلہ دیتا ہے گویا زبان حال سے ان سے کہہ رہا ہو گھبراو نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے ہم ضرور فتح پائیں گے اور وہ اس امت کے با غیرت لوگوں سے دعاوں میں یاد رکھنے کو کہتا ہے وہ مجاہدین اقصی اور غزہ و فلسطین کی حفاظت کی دعائیں چاہتا ہے ان لوگوں سے جس تک اسکی آواز پہنچ رہی ۔
7 اکتوبر 2023 کو دنیا کے سامنے اسرائیل کے دجل و فریب کی حقیقت اور ریت کے ذرات پر تعمیر طاقت کو کھولا کرنے کے بعد عرب و عجم کا ہیرو بننے والا ابو عبیدہ کو دنیا بڑی شدت سے انتظار کرتی ہے انکے بیانات کبھی مسجدوں میں کبھی گاڑیوں میں بہت ہی شوق سے سنا جاتا ہے ہر کوئی متمنی ہے کہ کاش ابو عبیدہ کا دیدار ہو جاتا ۔
لیکن ابو عبیدہ القسا۔م کے ان کمانڈروں میں سے ہیں جو گمنام رہتے ہیں جن کو دنیا صرف ترجمان کے طور پر جانتی ہے کبھی چھ منٹ کے کبھی دس منٹ کے بیان میں اسرا۔ئیل کی تباہی کو بیان کرتے ہیں پھر روپوش ہو جاتے ہیں ۔
ابو عبیدہ 2002 سے میڈیا میں حما۔س کی نمائندگی کی 25 جون 2006 کو پہلی بار حما۔س ترجمان کے طور پر میڈیا کے سامنے آئے تھے اور وہیں سے انکو دنیا نے جاننا شروع کیا 17 سال سے حما۔س کی عسکری تنظیم القسا۔م کے بطور ترجمان آ رہے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی آواز لب و لہجے یہاں تک جسمانی ساخت ان کے سٹائل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جیسے کل تھے ویسے ہی آج ہیں وہ گرج دار آواز جو 17 سال پہلے تھی وہی للکار آج بھی زندہ ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ آپ نے غزہ یونیورسٹی سے اصول الدین فیکلٹی سے ایم فل پی ایچ ڈی کی ہے غزہ میں ریلیوں کے دوران آپ کو کئی بار اسی نقاب میں دیکھا گیا ہے جو ہم نے دیکھ رہے ہیں صرف غزہ ہی نہیں صرف عرب ہی نہیں بلکہ عجم میں بھی آپ کو محبت و عقیدت سے دیکھا جانے لگا ۔
اسرائیل نے کئی دفعہ جھوٹے الزام لگائے کہ ابو عبیدہ کا اصل نام حذیفہ ہے اور وہ جبالیا میں رہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اس وقت جبالیہ پر اتنی پر تشدد بمباری کر رہا ہے حالانکہ یہ ایک جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے جس طرح ماضی میں محمد ضیف پر جھوٹے الزام لگائے اسی طرح حال میں ابو عبیدہ پر لگایا جا رہا ہے ۔
ابو عبیدہ کا ترجمانی کرنا ہی دشمن پر بار۔ود سے زیادہ اثر انداز کرنے والا ہے حدیث میں آتا ہے کہ
عبد الرحمن بن كعب بن مالك، عن أبيه، أنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم : إن الله عز وجل قد أنزل في الشعر ما أنزل، فقال: ” إن المؤمن يجاهد بسيفه ولسانه، والذي نفسي بيده، لكأن ما ترمونهم به نضح النبل ”
حضرت عبدالرحمن بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: بیشک اﷲ تبارک و تعالیٰ نے شعر کے بارے میں نازل کیا جو نازل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! گویا جو الفاظ تم ان (کفار و مشرکین)کی مذمت میں کہتے ہو وہ (ان کے لئے) بمنزلہ تیر برسانے کے ہیں۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند حدیث نمبر 27174
خدا حفاظت کرے اس جرنیل کی جبل استقامت کی عزم و ہمت کے اس جبال کی جرات و بہادری کے آفتاب کی فتح مبین کے کامل مہتاب کی ۔
اللہ تعالی اپنے سر فروشوں کے اور شہداء و شہدائے معصومین کے واسطے فلسطین کو آزاد فرما ۔