انگریز ملکوں میں رہنے والے مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے احوال

انگریز ملکوں میں رہنے والے مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے احوال

.

 

 


 

ایک صاحب جو کینیڈین نیشنل ہیں اور وہاں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ہیں اب پاکستان واپس شفٹ ہونے کے لیے کوشاں ہیں، ان سے جب اس کی وجہ دریافت کی تو ان کے انکشافات انتہائی خوفناک تھے، کہنے لگے کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں بہت کانفرنسوں میں شرکت کی جن میں چند ایک اسلام پر بھی تھیں ان میں سے ایک کانفرنس کے بعد جب کچھ پروفیسر اور دیگر بیٹھے کھانے پینے میں مشغول تھے اور گپیں لگ رہی تھیں تو باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگ اسلام کے اتنے پیچھے بھی ہیں اور مسلمان ملکوں کے لوگوں کو نیشنلسٹی بھی دیتے ہیں تو ایک پروفیسر بولا کہ ہم مسلمانوں کو نیشنلسٹی دیتے ہیں وہ یہاں آتے ہیں ہماری خدمت کرتے ہیں اور اس کے بدلے معاوضے کو اپنا اعلیٰ کیریئر مانتے ہیں جیسے آپ آئے ہیں، آپ یہاں ہماری حکومت کی نوکری کر رہے ہیں اور ہمارے بچوں کو وہ پڑھا رہے ہیں جو ہم پڑھوانا چاہتے ہیں۔ اس کے بدلے آپ کو اچھی تنخواہ ملتی ہے اور آپ فیملی سمیت اچھی زندگی گزار رہے ہیں جو پیچھے آپ کے دیگر لوگوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے اور ان میں بہت سے ہماری نوکریوں کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارا پہلا مقصد ہے اور دوسرا یہ ہے کہ آپ جیسے زیادہ تر لوگ اپنے مذہب قائم رہیں گے پر کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی اگلی نسل بھی آپ جیسی مذہب پر قائم رہنے والی ہو گی؟۔ ہمارے اندازے کے مطابق یورپی اور امریکہ کینیڈا آنے والے 70 سے 75 فی صد مسلمان اپنے عقیدے پر کسی نہ کسی طرح قائم رہتے ہیں پر اگلی نسل میں اسلام پر قائم رہنا صرف 20-25 فی صد رہ جائے گا اور اس کے بعد بس نام ہی مسلمانوں والا ہو گا اور ہو گا وہ ایسا لبرل مسلمان جو ہم بنانا چاہتے ہیں اس لیے ہماری نظر تم لوگوں کی تیسری اور چوتھی نسل پر ہے جو صرف نام کی مسلمان ہو گی۔ ہمارا پہلا مقصد تمہارے اعلیٰ دماغوں کو اچھے کیرئیر کا لالچ دے کر اپنا غلام بنانا ہے اور یہ کیرئیر ہماری نوکری کے بدلے ہے کوئی مفت میں نہیں ہے۔ دوسرا مقصد تمہاری نسلوں سے اسلام کو نکالنا ہے اور لبرل اسلام کو لانا ہے اور یہ کام تمہاری آنے والی نسلیں خود کریں گی۔

 

وہ صاحب کہنے لگے کہ اس انگریز پروفیسر کی باتیں سن کر میں نے جب اپنے بچوں کا تجزیہ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس پروفیسر کی باتیں اور انداز سے ناقابل یقین حد تک درست ہیں۔ مجھے اپنے بچوں میں دنیاوی معاملات میں کیرئیر بنانے کی، آگے بڑھنے کی اور اس ماحول میں رچ بس جانے کی لگن نظر آئی اور نہیں نظر آیا تو دین نظر نہیں آیا۔

 

 

اب میرے پاس ہاتھ ملنے اور پشیمانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ دنیاوی معاملات میں الجھ کر اپنی اولاد کو نہ دین کی روشنی پہنچا سکا اور نہ ہی اپنی سماجی اقتدار سے بہرہ مند کروا سکا ۔ اب واپس جانا پڑا تو خود ہی جا سکتا ہوں کیونکہ اولاد تو کینڈین شہری ہے اور ان پر اب میرا کوئی زور نہیں ہے ۔ میں ان کی باتیں سن کر سوچ میں پڑھ گیا کہ اس انگریز پروفیسر کی باتیں صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ اسلام دشمنی اور ہماری سماجی ، معاشرتی اقتدار کو توڑنے کا کئی دھائیوں پر مشتمل ایک پلان ہے ۔ 80/90 کی دھائیوں تک پرائیویٹ سکولوں میں داخلے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا پھر ہوا کا رخ بدلا گیا اور اب سر کاری سکولوں میں داخلے کو نیچے سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کا نظام برباد کر دیا گیا۔ انگریز نے ہمارے تعلیمی نظام کو ایسا بنوا دیا کہ سر کاری سکولوں میں انگریزوں کے پالتوں کے ووٹروں اور سپوٹروں کی کھیپ تیار ہو اور پرائیویٹ سکولوں میں اچھے کیر ئیر کا لالچ دے کر اپنی خدمت کے لیے غلاموں کو تیار کیا جا سکے اور ان غلاموں کے ذہنوں میں نقش ہو کہ انگریز ان سے افضل ہیں ۔ آج کل کے حالات میں اپنی استعداد کے مطابق بچوں کو اعلی تعلیم دلوانا بہت ضروری ہے پر ان نظر رکھنا کہ کہیں کوئی غلط عقیدہ یا نظریہ تو ان کے دماغوں میں نہیں ڈالا جا رہا یہ بھی بہت ضروری ہے اور ان کو دینی تعلیم دلوانا ہم پر لاگو ہے سکولوں کا لجوں پر نہیں اس لیے ان کی دینی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا اشد ضروری ہے ۔

 

 

ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اشرفیہ اور یہود و نصاری کا غلام تو تیار کر رہا ہے پر وہ مسلمان تیار نہیں کر رہا جس کی خودی کا ، حرمت کا، عشق کا، ولولہ کا اور جوش ایمانی کا اظہار علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے جابجا کیا ہے ۔ ہم لوگ جنت اور حوروں کے طلب گار بھی ہیں اور دعوی دار بھی ہیں کہ یہ سب کچھ صرف ہمیں ملے گا اور کفار کو کچھ نہیں ملے گا پر زندگیوں میں اسلام کو صرف اتنا لانا چاہتے ہیں جو ہمارے مفادات کے آڑے نہ آئے ۔ امن پسند اتنے ہو گے ہیں کہ عزت و ناموس پر حملوں کے وقت بھی امن ہی یاد آتا ہے ۔ انسانیت کا درس دیتے نہیں تھکتے پر جب یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کا ٹتے ہیں تب کبھی کبھار کوئی مذمتی بیان جاری کر کے جان چھڑالی جاتی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جائے

 

 

 

 

 

 

 

1952 کی پہلی تحریک ختم نبوت سے لے کر آج تک ہر لیڈر اور حاکم میں اسلام اور عشاق کے لیے بغض اور کفار و گستاخوں کے لیے ہمدردی نظر آتی ہے ۔ بد قسمتی سے ہزاروں لاکھوں کلمہ گو، علماء اور نام نہاد عاشق بھی ان لیڈروں، حاکموں کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہی آج قوم ذلت ورسوائی کی گہرائیوں میں ڈوب چکی ہے ۔ اسلامی تاریخ بانگ درا بتا رہی ہے کہ عزت صرف اس کی ہوئی جس نے عزت و ناموس اور ختم نبوت پر پہرہ دیا اور وہی قوم کامیاب ہوئی جو دین حق اسلام کے قوانین پر چلی۔ بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلوائیں پر اس کے ساتھ اچھے مومن مسلمان بنانا بھی ہماری اولین ذمہ داری اور ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ اس کے بارے میں بھی باز پرس ہوگی۔
منقول

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top