طارق فتح کی موت پر اہلِ ایمان کا مطمئن ہونا، غلط نہیں ہے !
.
طارق فتح کی موت ہوچکی ہے اسے خس کم جہاں پاک کےعلاوہ تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ طارق فتح اپنی بدقسمتی سے مرحوم نہیں ہوسکا وہ اپنی پوری زندگی ايسے ہی گزار گیا جیسے تاریخ اسلام میں عبداللہ بن ابی اور عمرو بن ھشام وغیرہ نے گزاری اب اگر آج کے دور کا کوئی ” ماڈرن مسلمان ” اپنی "رحمدلی ” ثابت کرنے کے لیے اس طرح اٹھ کھڑے ہو کہ ابوجہل و ابولہب کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ اب وہ مر چکے ہیں اور ان کے پسماندگان کو تکلیف ہوگی، توپھر ایسے ماڈرن ازم کو مسلمان ملّت کیسے مسترد کرےگی اس کا اندازہ بخوبی ہونا چاہیے اور اس کے لیے تیار بھی رہنا چاہیے ۔
طارق فتح کو بھارت میں بنیادی طورپر آر۔ایس۔ایس نے گود لیا تھا اور آر ایس ایس نے آفیشلی جسطرح طارق فتح کی موت پر غم و اندوہ کا اظہار کیا ہے وہ یہ واضح کرنے کے لیے بہت کافی ہے کہ طارق فتح مسلّح اسلام دشمن ہندوتوا طاقتوں کا کتنا چہیتا مہرہ تھا۔
طارق فتح کےمتعلق ہمیں لکھنے کا مزید حق اس لیے بھی حاصل ہے کہ ہم ان چند افراد میں سے ہیں جنہیں اللہ نے اپنی توفیق سے طارق فتح کے دجل و فتنہ، گستاخیوں اور اسلام دشمنی کےخلاف کام کرنے کی سعادت دی تھی جس وقت طارق فتح اپنے بدترین فتنہ وجود کےساتھ بھارت کی سرزمین پر تھا اور مسلمانانِ ہند کےخلاف نیشنل میڈیا پر بیٹھ کر خود کو مسلمان ظاہر کر کے ہندوﺅں کو مسلمانوں کےخلاف بھڑکاتا تھا اور اسلام کی انتہائی غلط تصویر پیش کر کے بھارت کے لوگوں کو مسلمانوں اور اسلام سے ڈرانے کا کام کرتا تھا اُس وقت برادرم مفتی یاسر ندیم الواجدی، اور احباب کےساتھ ملکر ہم نے اس فتنے کےخلاف الحمدللہ محنت کی تھی، کام کیا تھا، اُس وقت جو بھی مسلمان ہمارے ساتھ اس کاز میں جڑے تھے ان کی یاددہانی کے لیے اُس وقت کا ایک مشہور پوسٹر بھی اس مضمون کےساتھ لگا رہا ہوں کچھ پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے ♥
چنانچہ اس وجہ سے ہمیں علٰی وجہ البصیرت واقفیت ہے کہ طارق فتح کیا تھا، اس کی حیثیت کیا تھی اور مسلمانوں کو اس سے کس قدر نقصان پہنچا _
چنانچہ بہت زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے طارق فتح کےمتعلق اہم اہم نکات پیش کرتے ہیں:
۱۔ طارق فتح مسلمان نہیں تھا۔
۲۔طارق فتح کےنام سے دھوکہ نہ کھائیں منافقین کے سردار کا نام عبداللہ تھا۔
۳۔طارق فتح قرآن کا مذاق اڑاتا تھا۔
4۔طارق فتح ہمارے نبیۖ کی توہین کرتا تھا۔
۵۔طارق فتح اللہ جل جلالہ کی شان میں بکواس کرتا تھا۔
6۔ طارق فتح صحابۂ کرامؓ سمیت امہات المومنین کا بھی احترام نہیں کرتا تھا۔
7۔طارق فتح قرآن و سنت اجماع صحابہء کرامؓ سمیت مسلمہ اصول و عقائدِ اسلام کے متوازی باتیں کیا کرتاتھا۔
۸۔ طارق فتح اپنی پوری زندگی عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دینے میں لگا رہا۔
۹۔طارق فتح نے ہندوستان میں سب سے زیادہ نفرت کی کھیتی کی۔
۱۰ ۔مودی سرکار آنے کےبعد سب سے پہلے جس شخص کو آر ایس ایس کے اسلام مخالف ایجنڈے کو لےکر میدان میں اتارا گیا وہ طارق فتح تھا۔
۱۱ ۔ طارق فتح نے آر ایس ایس کے ایجنڈے کےمطابق خود کو مسلمان بتا بتا کر ہندوستانی چینلوں پر اسلام کے خلاف زہر اگلا اور مسلمانوں سے ہندوﺅں کو ڈراتے رہا یہاں تک کہ بیشمار ہندو لوگ آج بھی طارق فتح کے پروپیگنڈے کی وجہ سے اسلام سے ڈرتے ہیں اور مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ۔
۱۲ ۔ طارق فتح صرف یہیں پر نہیں رکا بلکہ بھارتی مسلمانوں کےخلاف اس نے سوشل میڈیا پر فیک نیوز کو بھی بڑھاوا دیا اور مسلمانوں کےخلاف اشتعال انگیزی کرتا، واضح رہے کہ یہ وہی دور تھا جب ٹی۔وی پر گودی میڈیا اور سوشل میڈیا پر سنگھی آئی۔ٹی۔سیل کےذریعے مسلمانوں کےخلاف مسلسل پھیلائے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈوں کےبعد جابجا مسلمان ماب۔لنچنگ کا شکار ہوتے تھے۔
۱۳ ۔ طارق فتح نے کشمیری مسلمانوں سے لےکر فلسطینی مسلمانوں کی بدترین مظلومیت کا بھی مذاق اڑایا ۔
14‐آج بھارت میں مسلمانوں کے لیے جتنے بھی سخت اور بدترین حالات ہیں انہیں پیدا کروانے میں مودی سرکار آنے کےبعد جس ابتدائی ہندوتوا بریگیڈ نے آر ایس ایس کے مقدمۃ الجیش کے طورپر کام کیا تھا ان میں سے طارق فتح تھا۔
۱۵ ۔ طارق فتح زندگی بھر مسلمانوں سے نفرت کرتا رہا اور مسلمانوں کو مظلوم و مغلوب دیکھنا اس کی نفسیاتی آرزو تھی اس نے اسلام کو زندگی بھر حقارت کےساتھ ٹھکرایا مسلمانوں کےخلاف نفرت اور دشمنی میں وہ اس درجہ لت پت تھا کہ اس کی دشمنی مسلم قوم سے زیادہ الله رب العزت اور اللہ کے آخری اور محبوب پیغمبرﷺ سے ہوگئی تھی اور جو کوئی اللہ یا رسول اللہﷺ سے محبت کرنے والا ہوتا یا ان کا پرچم بلند کرتا طارق فتح اس سے نفرت کرتا اور اس کےخلاف ہذیان گوئی پر اتر آتا تھا۔
16۔ اسلامی تعلیمات، شرعی احکامات اور مسلمانوں کے موقف کےخلاف طارق فتح ہر آئےدن فتنہ انگیزی کرکے ہندوتوا طاقتوں کو مسلمانوں پر حملہ آور کراکے پریشان کرتا تھا _
ایسے فتنے کا دروازہ بند ہوجانے پر اگر مسلمان اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتےہیں کہ اس نے ایک فتنے سے ان کی جان چھڑائی تو اس میں حرج کیا ہے؟
یقیناﹰ نظریاتی اور خالص مقامی سیاسی مخالفین خواہ غیرمسلم بھی کیوں نہ ہوں ان کی موت پر ہرگز خوشی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے لیکن طارق فتح مخالفین کی قابل اعتناء فہرست سے بہت آگے نکل چکا تھا اور زمین پر شیطان کے باضابطہ نمائندے کا رخ اختیار کرچکا تھا اس نے اللہ اور اس کے پیارے نبیۖ سے دشمنی کی تھی اور مسلمانوں کو وہ اس لیے ایذاء پہنچاتا تھا کہ وہ خود کو محمدﷺ کا امتی کہتےہیں، کچھ مسلمانوں کی طرف سے ایسے دشمنِ دین، دشمنِ خدا و رسولﷺ کی موت کو ذاتی نظریاتی مخالف یا مقامی سیاسی حریف کی طرح لینے کو یا تو ناواقفیت کہا جاسکتا ہے یا تو حددرجہ مرعوب ماڈرن ازم جو بالآخر اسلامی حساسیت اور ناموسِ رسالتﷺ کے جذبات سے مسلمان کو محروم کردیتی ہے، افسوس تو اس پر ہے کہ کچھ تعلیمیافتہ کہلانے والے مسلمان طارق فتح کی دعائے مغفرت بھی کررہےہیں اور کروانا بھی چاہتےہیں، مجھے واقعی ڈر ہے کہ اللہ اور اس کے نبیۖ کو ایذاء رسانی کرنے والے شخص کےمتعلق ادنیٰ سی ہمدردی اور احترام کا جذبہ کہیں ایسے لوگوں کو خود بھی الله کی ناراضگی کا شکار نہ بنادے۔
طارق فتح مرگیا ہے وہ زندگی بھر اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی کھیتی کرتا رہا ہے مسلمانوں کو حقیر سمجھتا اور بتاتا رہا ہے مسلمانوں پر قاتلانہ حملوں کو انگیز کرتا رہا ہے اس کے مرنے پر اس کےساتھ واحد انصاف یہی ہوسکتاہے کہ اس کی آخری رسومات اس کی زندگی کےمطابق ادا کی جائیں اور اس کی لاش کو بھارت لاکر اس کا انتم سنسکار کرتے ہوئے اس کے مردہ جسم کو نذرآتش کیا جائے، آر ایس ایس نے آفیشل سطح سے جس طرح طارق فتح کی موت پر غم کا اظہار کیا ہے اور طارق فتح کی موت پر آنسو بہائے ہیں مجھے امید ہے کہ سَنگھ اپنے اس چہیتے پیادے کی چتا کو اس کے احترام کےساتھ آگ لگا کر اسے اپنی وفاداریوں کا صلہ ضرور دےگا_
۞بس نام رہےگا اللہ کا۞
✍: سمیع اللہ خان