حرم شریف کے وہ امام جنہوں نے امامتِ حرم
سے استعفی دیا تھا، وجہ کیا ہوئی؟……….
.
.
بلبلِ کعبہ، شیخ علی جابرؒ کے تعلق سے مکمل تفصیلات
.
..
فضیلة الشیخ علی جابر السعیدیؒ مسجد حرام کے امام تھے۔ اپنے منفرد لہجے اور انتہائی میٹھی آواز کی وجہ سے انہیں ”بلبلِ کعبہ“ کہا جاتا تھا۔ دنیا بھر کے ائمہ مساجد سب سے زیادہ شیخ جابرؒ کے لہجے کی تقلید (نقل) کرتے تھے۔ یہ اپنے سدیس صاحب بھی انہی کے مقلد ہیں۔ شیخ جابرؒ کو قدرت نے اتنی خوبصورت آواز سے نوازا تھا کہ ان کی تلاوت سے سننے والوں کا ہوش گم ہو جاتا تھا۔ شیخ جابرؒ پر خشیت الٰہی کا اتنا غلبہ تھا کہ دوران نماز خود بھی روتے اور نمازیوں پر بھی رقت طاری ہو جاتی۔
جب طالب علمی کے دوران مدینہ منورہ کی ایک مسجد میں شیخ جابرؒ نے نمازیں پڑھانا شروع کیں تو چہار سو ان کی آواز کا چرچا ہو گیا اور اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ خالد بن عبد العزیز بھی ان کے گروید ہو کر انہیں اپنے شاہی محل کا امام مقرر کر دیا۔
شیخ جابرؒ 27 اگست 1953ءکو سعودی عرب کے تاریخی شہر جدہ میں پیدا ہوئے۔ صرف 52 برس کی عمر میں وہ 12 دسمبر 2005ءکو دنیا سے رخصت ہوئے۔
شیخ جابرؒ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے حِمیَر سے تھا۔ ان کے والد عبد اللہ جدہ میں ہوٹل چلاتے تھے۔ جب ان کے یہاں جڑواں بیٹوں (شیخ جابر اور سالم) نے جنم لیا تو انہوں نے عزم کیا کہ اپنے ایک بیٹے کو دین کا خادم اور قرآن کریم کا حافظ بنائیں گے۔ یہ عزم لے کر وہ رسول اکرمﷺ کے مقدس شہر مدینہ منورہ منتقل ہوئے۔ اس وقت شیخ جابرؒ کی عمر پانچ برس تھی۔ ان کے والد نے انہیں مدینہ منورہ میں حفظ قرآن کے مدرسے جامع الامیرہ منیرہ میں داخل کیا۔ یہاں گیارہ پارے حفظ کرنے کے بعد وہ معہد القرآن الکریم میں داخل ہوئے۔ جہاں وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے مشہور قاری شیخ خلیل الرحمنؒ کے پاس قرآن کریم حفظ کرنے لگے۔ عبد اللہ نے اپنے بیٹے جابر کی ایسی تربیت کی کہ بچپن میں بھی وہ کبھی کھیل کود کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ وہ اپنے گھر سے مدرسے اور وہاں سے مسجد نبوی تک کا ہی راستہ جانتے تھے۔ شیخ جابر ابھی حفظ مکمل نہیں کرپائے تھے کہ گیارہ برس کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ والد کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد ان کی والدہ نے اپنے بھائیوں کی مدد سے بچوں کو سنبھالا اور شیخ جابرؒ کی دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ پندرہ برس کی عمر میں انہوں نے قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا۔ ان کے حفظ کے ساتھیوں میں شیخ ایوب برمیؒ بھی تھے، جو بعد میں مسجد نبوی کے مشہور امام بن گئے۔ شیخ جابرؒ نے قرآن کریم کو اتنے عمدہ انداز میں یاد کیا کہ پورے تیس پاروں میں وہ ایک غلطی بھی نہیں کرتے تھے اور نہ کہیں اٹکتے تھے۔ حفظ قرآن کریم کے بعد شیخ جابرؒ نے سیکنڈری تک تعلیم اسی مدرسے میں حاصل کی۔ اس کے بعد مزید دینی تعلیم کے لئے وہ جامعہ اسلامیہ کے کلیہ شریعہ میں داخل ہوئے اور 1396ھ میں وہ یہاں سے امتیازی پوزیشن حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد وہ ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کےلئے ریاض چلے گئے، جہاں المعہد العالی للقضاء میں انہوں نے ماسٹر کیا۔ جس میں انہوں نے ”فقہ ابن عمر وما اثرہ فی مدرسة المدینة“ کے عنوان پر مقالہ لکھا اور امتیازی نمبرات حاصل کئے۔ بعد میں انہوں نے ”فقہ القاسم موازنا بفقہ اشہر المجتہدین“ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہی شیخ جابرؒ کو قاضی کے عہدے کی پیشکش کی گئی، بلکہ اس وقت کے چیف جسٹس شیخ ابن حمیدؒ نے آپ کو طائف کے قریبی علاقے میسان کا قاضی مقرر کرکے آرڈر بھی جاری کر دیا۔ مگر شیخ جابرؒ نے معذرت کر لی۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے اُسی مشہور حدیث نبوی کا ذکر کیا کہ دو قسم کے قاضی جہنم میں اور ایک قسم کا قاضی جنت میں جائے گا۔ مگر اس کے باوجود چیف جسٹس نے ان کا عذر قبول نہیں کیا اور یہ معاملہ شاہ خالد کے پاس بھیج دیا تو شاہ خالد نے شیخ جابرؒ کا عذر قبول کرکے انہیں قاضی کے عہدے کے بجائے وزارت عدل میں ایک اور اہم عہدے پر تعینات کر دیا۔ مگر شیخ جابرؒ چونکہ تقویٰ کے اونچے مرتبے پر فائز تھے، اس لئے انہوں نے شاہ خالد سے بھی صاف کہہ دیا کہ میں وزارت عدل و انصاف کے قریب بھی جانا نہیں چاہتا تو ان کا عذر قبول کر لیا گیا۔ جس کے بعد شیخ پورا سال بے روزگار رہے، مگر عہدے قبول نہیں کئے۔ شیخ جابرؒ کو علمی مشاغل سے دلچسپی تھی، اس لئے شاہ خالد نے ایک حکمنامہ جاری کرکے انہیں جامعہ ملک عبد العزیز کی مدینہ منورہ والی برانچ میں عربی زبان کا استاذ مقرر کیا۔
اسی دوران شیخ جابر کو اسکالرشپ پر انگلش سیکھنے کیلئے کینیڈا بھیجا گیا۔ جہاں وہ آٹھ ماہ مقیم رہے۔ اسی دوران شیخ جابرؒ نے کینیڈا میں پورے قرآن کریم کو ترتیل سے پڑھ کر ریکارڈنگ کرائی، یہی مشہور ریکارڈنگ اب حرم شریف کے چینل سے نشر کی جاتی ہے۔ شیخ جابرؒ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ بن بازؒ کے خاص شاگرد تھے اور ان کے ساتھ خصوصی تعلق رکھتے تھے۔ شیخ بن بازؒ سفر و حضر میں انہیں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ طالبعلمی کے دوران اکثر کھانا بھی انہی کے ساتھ کھاتے تھے۔ ان کی تربیت، تقویٰ اور تزکیہ نفس میں شیخ بن بازؒ کا سب سے بڑا کردار تھا۔ شیخ جابرؒ نے دوران تعلیم ہی مدینہ منورہ کی تاریخی مسجد ”مسجد غمامہ“ میں دو سال امامت کے فرائض سر انجام دیئے۔ پھر وہ مسجد سبق میں امام مقرر ہوئے۔ اس دوران پورے سعودی عرب میں ان کی آواز کی شہرت ہو گئی تو شاہ خالد نے انہیں اپنے طائف میں واقع شاہی قلعے میں امام مقرر کر دیا۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سعودی فرمانروا شاہ خالد طائف آئے تو شیخ جابرؒ سے کہا کہ آپ میرے ساتھ مکہ مکرمہ چلیں۔ شیخ جابر کو اندازہ نہیں تھا کہ شاہ خالد ان کے بارے میں تاریخ کا عجیب فیصلہ کرنے والے ہیں۔ شیخ جابر شاہ خالد کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچے۔ افطاری کے بعد شاہ خالد نے کہا کہ نماز حرم شریف میں پڑھیں گے اور آج تراویح آپ پڑھائیں گے!!!
شیخ جابر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں امام حرم اور امام المسلمین بننے کا شرف حاصل ہو جائے گا۔ بغیر کسی پیشگی تیاری کے شیخ جابرؒ نے لاکھوں افراد کو نماز پڑھائی۔ اس دوران ان پر ذرا بھی گھبراہٹ کے آثار ظاہر نہیں ہوئے، حالانکہ نماز تراویح کے دوران ہزاروں افراد امام کے سامنے طواف میں مصروف ہوتے ہیں اور لاکھوں افراد اس کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ شیخ جابرؒ نے جب نماز پڑھائی تو حرم شریف کی انتظامیہ سمیت وہاں کی سرکردہ شخصیات اور عام نمازی ان کی آواز کے گرویدہ ہوگئے اور انہوں نے شاہ خالد سے درخواست کی کہ شیخ جابر کو رمضان کے بقیہ دو دنوں کی تراویح پڑھانے کیلئے یہاں رہنے دیجئے۔ شاہ خالد نے ان کی درخواست قبول کرلی اور انہیں حرم شریف میں چھوڑ کر خود روانہ ہوگئے۔ یوں شیخ جابرؒ صرف 27 برس کی عمر میں مسجد حرام کے غیر رسمی امام بن گئے۔ رمضان کے بعد شاہ خالد نے شاہی فرمان جاری کر کے انہیں مسجد حرام کا باقاعدہ امام مقرر کر لیا۔
وہ 1401ھ سے 1402ھ تک حرم شریف میں نماز تہجد اور تراویح کے ساتھ نماز فجر بھی پڑھاتے رہے۔ جب تک شاہ خالد زندہ رہے شیخ جابر مسجد حرام میں امامت کراتے رہے۔ مگر 1402ھ میں ان کی وفات کے بعد شیخ جابر نے اپنا استعفیٰ پیش کیا تو سب حیران رہ گئے۔ انتظامیہ نے جب ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ امامت بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ خاص کرکے مسجد حرام میں لاکھوں افراد کی امامت کرانا نہایت حساس اور سنگین معاملہ ہے۔
انتظامیہ نے ان کا استعفیٰ منظور کرلیا۔ مگر حرم شریف کے نمازی شیخ جابرؒ کے مستعفی ہونے پر بہت دل گرفتہ ہوئے۔ شیخ جابرؒ شاید واحد عالم دین ہیں، جو حرم شریف کی امامت جیسے اعلیٰ منصب سے مستعفی ہوئے، حالانکہ اس منصب تک پہنچنے کا عام قراء و علماء تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مگر چونکہ شیخ جابرؒ نام و نمود، حب جاہ اور شہرت پسندی کی صفات سے یکسر خالی اور تقویٰ کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے، اس لئے انہوں نے اسے بہت بھاری ذمہ داری سمجھ کر خود کو اس سے الگ کرلیا۔ امامت سے سبکدوشی کے بعد شیخ جابرؒ واپس مدینہ منورہ چلے گئے اور اپنے تدریسی اور علمی مشاغل میں جت گئے۔ پھر 1406ھ کے رمضان المبارک میں شہزادہ سلطان بن عبد العزیز کے اصرار پر شیخ جابر کو دوبارہ مسجد حرام کی امامت کا فریضہ سنبھالنا پڑا۔ ان کی حرم شریف میں دوبارہ آمد پر نمازیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ تاہم اس بار انہیں صرف رمضان المبارک میں تہجد کی نماز پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
مگر اگلے برس ان کے نام شاہی فرمان جاری نہیں ہوا تو انہوں نے مدینہ منورہ کی مسجد محتسب میں تراویح پڑھائی۔ تاہم اس کے بعد 1409ھ تک وہ ہر رمضان میں مسجد حرام میں امامت کراتے رہے۔ اس کے بعد شیخ جابر جدہ منتقل ہوگئے اور وہاں بھی لوگوں کے اصرار پر امامت کراتے رہے۔ مگر شیخ جابر کی صحت، جوانی میں ہی خراب ہو گئی۔ اس لئے تراویح پڑھانا ان کیلئے بہت مشکل ہو گیا۔ شیخ جابرؒ کو اپنی شیریں آواز کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی جانب سے حسد کا بھی سامنا ہوا اور انہیں نظر بد بھی لگ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ تک ان کی آواز بالکل بند ہو گئی تھی۔ تاہم بعد میں علاج معالجے کے بعد ان کی آواز تو بحال ہوگئی، تاہم نوجوانی والی مٹھاس باقی نہیں رہی۔ ان کا وزن بھی بہت بڑھ گیا اور مصلیٰ پر کھڑا ہونا ان کےلئے مشکل ہو گیا۔
2005ء میں وہ بالکل بستر سے لگ گئے۔ جدہ کے ایک اسپتال میں وہ کافی عرصہ داخل رہے۔ اس دوران وزن کم کرنے کیلئے ان کے کئی آپریشن ہوئے۔ مگر شیخ کی صحت روز بروز گرتی گئی۔ پھر 13 دسمبر 2005ء کو ”بلبلِ کعبہ“ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ شیخ جابرؒ کو چونکہ قرآن کریم کے ساتھ عشق کی حد تک محبت تھی۔ وہ قرآن کریم کی آیات میں غور و فکر کرتے اور کھوئے رہتے۔ قرآن کریم سے بے پناہ محبت کی برکت سے وفات کے بعد ان کی کئی کرامتیں ظاہر ہوئیں۔ ان کے بیٹے کا بیان ہے کہ شیخ کے جسد خاکی کو 12 گھنٹے سرد خانے میں رکھنے کے بعد جب غسل کیلئے نکالا گیا تو وہاں موجود طبی عملہ سمیت سب حیران رہ گئے کہ شیخ کا جسم سرد خانہ میں رکھنے کے باوجود بالکل نرم تھا، ان کا جسم چند گھنٹے پہلے مرنے والے شخص کی طرح کافی گرم بھی تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا سرد خانے میں چھ گھنٹہ رکھنے کے بعد میت کا جسم بالکل فولاد کی طرح سخت ہو جاتا ہے، مگر شیخ کا جسم روئی کی طرح نرم تھا۔ علاوہ ازیں ان کے بھاری بھرکم جسم کا وزن نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ تین افراد نے بڑی آسانی سے انہیں اٹھایا۔ غسل دینے والے علماءکا بیان ہے کہ تجہیز و تکفین کے دوران شیخ جابرؒ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
شیخ کی میت کو تدفین کیلئے مکہ مکرمہ لایا گیا۔ جہاں عصر کے بعد امام حرم شیخ صالح نے (جو انڈیا پاکستان آئے تھے اور اب گمشدہ افراد میں شامل ہیں ) ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جنازے کے بعد ہزاروں افراد میت کے ساتھ پیدل چل کر مقبرة الشرائع (قبرستان) پہنچے۔ بہت سے افراد جنازے میں شرکت سے محروم رہ گئے تھے، اس لئے قبرستان میں ایک مرتبہ پھر جنازہ پڑھایا گیا۔ جس کی امامت مسجد نبوی کے امام شیخ ایوب برمیؒ (شیخ جابرؒ کے بچپن کے دوست) نے کرائی۔ ہزاروں افراد نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ شیخ جابر کو الوداع کہا۔ لحد میں اتارنے کے بعد شیخ صالح اور شیخ ایوب نے مٹی ڈالی اور علم و عرفان کے اس آفتاب و ماہتاب کو دفن کرکے حسرت و یاس کی تصویر بن کر واپس لوٹے۔
حق تعالیٰ ان کی قبر پر رحمتوں کی بارش برسائے۔
شیخ علی جابرؒ کی تراویح کی ویڈیو کا لنک⬇ جس پر 6 ملین سے زیادہ ویوز ہیں
.
.
.
.
اور شیخ شیخ علی جابرؒ کی آواز میں مکمل قرآن کریم اوڈیو کی شکل میں سننا یا ڈاؤنلوڈ کرنا چاہیں تو اس لنک⬇ کو پریس کریں