حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی رحلت
روایتی بزرگوں کے مفقود ہوتے سایے
.
.
حضرت مولانا رابع حسنی ندوی علیہ الرحمہ، متفرق نسبتوں میں ملت کی ناخدائی فرما رہے تھے، وہ حضرت مفکر اسلام علیہ الرحمہ کے معتمد خاص تھے، اسی لیے باگ ڈور کی سپردگی کے دوران، ان کی ترجیح عمل میں آئی تھی؛ ورنہ ندوی عرفیت میں دوسرے عزیز فائق ہوا کرتے تھے۔
انھوں نے روایتی بزرگی اور عالمانہ درویشی کو حضرت مفکر اسلام کے درخشاں ترکے کی حیثیت سے اوڑھا اور زندگی کی زینت بنایا، ان کی وضع پر حضرت پیش رو کا پرتو تا زیست نمایاں رہا، حضرت کی یہ ادائے کفش برداری اور جستجوئے نقش، لوح محفوظ کے اندراج میں مقبول پائی گئی، وہ رمضان میں بروز جمعہ رخصت ہوئے تھے اور یہ اتباع کو "جاری” کا رنگ دیتے ہوئے رمضان کی جمعرات کو گئے۔
نگاہیں، اکابر کی نسبتوں پر چمک اٹھتی تھیں، دور افتادہ ریاستوں کے علمی ودینی اداروں کا ذکر تھا، میرے ایک خاص دوست حاضر مجلس تھے، فرق نمایاں کرنے کے لیے فرمانے لگے کہ بہت کچھ بہتری تسلیم، وہاں کے علمی مراکز میں بھی خوش گوار ہوائیں چل رہیں ہیں؛ مگر گنگوہ اور تھانہ بھون کی آہیں کہاں سے لائیں گے؟ اس دیار میں جو صدائیں لگائی گئی ہیں اور عرش بریں میں باریاب ہوئی ہیں، اس کا متبادل کیسے ممکن ہے؟
ان کی شخصیت نے، حضرت مفکر اسلام علیہ الرحمہ کی تربیت کو وقار بخشا، متانت و استغنا، سحر خیزی، علم و حلم، دور اندیشی و دانشوری، دینی مسائل اور قومی مقدمات میں جمہور سے وابستگی، ملی اثاثوں کی قدر افزائی، القصہ! وہ ہر امتحان میں جانشین ثابت ہوئے اور اپنی ذات سے حضرت مولانا علی میاں کے فیوض وتبرکات کو امتداد زمانی بخشا، رب کریم قرب خاص عطا فرمائے، نقوش وآثار کو یہاں حساب جاری اور وہاں درجات عالیہ میں تبدیل فرمائے، آمین۔