ہندوستان اور مغرب کےدرمیان سَرد جنگ کی آہٹ
.
.
بی بی سی کی مودی کے فسادی چہرے کو بےنقاب کرنے والی ڈاکیومنٹری سے لےکر ہنڈن برگ رپورٹ کےذریعے اڈانی کا دیوالیہ نکلنے تک، مغرب کی ہردو کارروائی بھارت کو وارننگ ہے، یہ دراصل بھارت کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسیوں کےجواب میں مغرب کی جانب سے سرد جنگ چھیڑے جانے کا اشارہ بھی ہے !
کس نے سوچا تھا کہ جس وقت بھارت میں مودی، آر۔ایس۔ایس اور ڈوبھال انتہائی آمرانہ طورپر اپنے سیاسی مخالفین کی فائلیں کھول کھول کر انہیں ای۔ڈی کی حوالات میں پھینک رہے ہوں گے،
ہندوراشٹر کےخلاف آواز اٹھانے والوں پر این۔آئی۔اے اور اے۔ٹی۔ایس کو مسلّط کررہے ہوں گے اور اپنے ہر ممکنہ مخالف کو اُس کی فائلیں کھولنے کا ڈر دکھایا جارہا ہوگا، عین اُسی وقت بی بی سی بھارتی نہیں بلکہ عالمی سطح پر مودی اور سَنگھ کی فائلیں ایسے کھولنے لگ جائےگا کہ مودی سرکار کو ان فائلوں کو چھپانے کے لیے جنگی ایمرجنسی پاور کا سہارا لینا پڑے اور ہنڈن برگ مودی کے دست راست اڈانی کی فائلیں اس طرح کھول دے کہ دنیا کے امیرترین شخص کو آناً فاناً اسرائیل بھاگنے کےباوجود پناہ نہ ملے ! سچ ہےکہ کبھی کبھی مظلوموں کی بزدلی کےباوجود اللہ کو ظالموں کے تکبّر کی وجہ سے مظلوموں پر رحم آجاتاہے_
بھارت کی نئی سرکار ادھر کچھ عرصے سے حیرت انگیز طورپر مغرب کو آنکھیں دکھا رہی تھی، مغربی حکومتوں اور اداروں کی جانب سے بھارت میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر جو تنقیدیں کی جاتی رہیں انہیں بھی مودی سرکار نے برداشت نہيں کیا، جس برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور جس امریکا کی گود میں بیٹھ کر جمہوری سیاست کے استحصالی گُن سیکھے انہی کو اچانک آنکھیں دکھانے لگ جانا کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے،
.
2014 میں جب مودی وزیراعظم ہوئے اور بھارت نے اپنی پالیسیوں کو آر ایس ایس کے نظریات کےمطابق ڈھالنا شروع کیا تھا تبھی پختہ کار سیاسی مبصرین نے کہنا شروع کردیا تھا کہ ان لوگوں کو حکومت کرنے کا کوئی ڈھنگ نہیں ہے یہ پورے ملک کو گڑھے میں دھکیل دیں گے، سابق وزیراعظم اور دنیا کے قدآور لیڈر منموہن سنگھ تک نے پیشنگوئی کی تھی کہ "
"It will be a disaster if Modi becomes Prime Minister of India.”
” اگر نریندرمودی بھارت کے وزیراعظم بن گئے تو ان کا وزیراعظم بننا اس ملک کے لیے بہت بڑی آفت اور مصیبت بن جائےگا "
اور اب یہی ہورہاہے، مودی سرکار بھارت کو بحیثیت ملک نہیں چلا رہی ہے بلکہ بھارت کی پالیسیوں کو آر ایس ایس کے نفرتی ایجنڈے اور ہندوتوا نظریے کےمطابق ڈھالنے کے لیے محنت کررہی ہے، ظاہر ہے ایسی محنتوں کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہونا ہے، مودی سرکار کا طرز حکمرانی بندر کے ہاتھ میں استرے کا واضح مصداق ہے،
بھارت جن خارجہ پالیسیوں پر ستر سالوں سے چل رہا تھا انہیں یکایک تبدیل کرنے لگ جانا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کی انہی بنیادوں کو آنکھیں دکھانے لگنا یہ سب بہت بڑی حماقتیں تھیں جو کئی سالوں سے بھارت کی مودی سرکار کررہی تھی، روس اور چائنا سے ظاہری اور درپردہ قربتیں بڑھانے تک تو ٹھیک تھا لیکن عالمی اسٹیج پر ان دونوں طاقتوں کے سہارے یا زعم میں بھارت نے مغرب کےخلاف جس غیرمحتاط خودسَری کا مظاہرہ کیا وہ حماقت تھی!
مودی سرکار کی ان بچکانہ سیاسی نابالغیوں کو برطانیہ اور امریکا نے کافی حد تک برداشت کےساتھ تنقیدوں کےذریعے درست کرنے کی کوشش کی لیکن جب بھارت کے وزیرخارجہ نے مغرب کے گڑھ میں بیٹھ کر مغربی سوراج کو چیلینج کیا تو مغربی استعمار نے سیریس لے لیا چنانچہ بی بی سی ڈاکیومنٹری اور ہنڈن برگ کو مورچہ سنبھالنے کے لیے کہا گیا، مودی سرکار ملک کو ایسے چلانے لگی ہے جیسے کہ آر ایس ایس کی مقامی شاخاؤں کو چلایا جاتا ہو، ملک کی بنیادوں روایتی خارجہ پالیسیوں اور دوررس عالمی منافع کےمطابق پالیسیاں مرتب کرنے کی بجائے اپنے نفرتی ایجنڈے اور برہمنی نسل پرستی کےمطابق پالیسیوں کو ایڈجسٹ کرنے کی کوششیں کسی ریاست کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گی چہ جائیکہ پورے ملک کے ڈھانچے کو ہی اگر داؤ پر لگادیا جائے تو حاصل کیا ہوگا؟ ظاہر سی بات ہے کہ ایسی بیوقوفیوں کا خمیازہ تو بھگتنا ہی ہوگا، کیونکہ آپکے پاس ابھی اتنی طاقت ہے ہی نہیں کہ آپ مغرب کو کراس کرکے بآسانی نکل جاؤ،
بی بی سی ڈاکیومنٹری ریلیز کرکے برطانیہ نے جہاں مودی استعمار کو مزید راز افشاء کرنے کا پیغام بھیجا ہے وہیں ہنڈن برگ رپورٹ کےذریعے مودی کے داہنے ہاتھ اڈانی کو توڑ کر وارننگ دی ہےکہ اس کے تمام وسائل اسی طرح کھوکھلے کیے جاسکتے ہیں، بھارت سرکار میں جو لوگ پالیسی سازی کے منصب پر بیٹھے ہیں انہیں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ جس ملک کے آئین میں ابھی تک برطانوی عہد کی دفعات موجود ہیں جس ملک کا پارلیمانی تمدن اور دفتری تہذیب تک برطانوی اثرات پر قائم ہے وہ اچانک برطانیہ کو چیلینج کرنے لگ جائے تو برطانوی نسل پرست اس کا ردعمل کس طرح دیں گے؟ اور پھر امریکا تو ویسے بھی مصر سے لےکر پاکستان تک میں حکومتوں کا تختہ پلٹنے کے لیے مشہور ہے ہی !
عالمی منظرنامے پر مغربی سامراج یقینًا ثانوی ہونے کی کشمکش سے دوچار ہے لیکن یہ کشمکش چائنا روس اور ایران جیسی طاقتوں کے مقابلے میں ہے ہندوستان ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ان دونوں عالمی خیموں میں سے کسی ایک کی وکالت کرنے لگ جائے، ذاتی طورپر ہم خود مغربی بالادستی کےخلاف ہیں لیکن بھارت کی پارلیمانی، سیاسی اور خارجہ پالیسیوں کی جڑوں میں جو مغربی اثرات پیوست ہیں ان کا انکار بھی ممکن نہیں ہے، مغرب کےپاس مودی اور اڈانی کی فائلوں کےعلاوہ ابھی مزید کتنی اور کس کس قسم کی فائلیں موجود ہیں اس کا اندازہ کوئی نہیں لگاسکتا دنیا بھر کے ممالک میں برطانوی اور امریکی انٹلیجنس نے جس قسم کے آپریشن انجام دیے ہیں وہ ہمیشہ چونکانے والے ہوتےتھے، مغرب کی یہ جڑیں اپنے آپ میں انتہائی نسل پرستانہ اور بالادست ذہنیت کی حامل ہیں انہیں بغیر کسی تیاری کے چھیڑنا ہی خطرناک ہوسکتاہے چہ جائیکہ آپ سیدھے چیلینج کرنے لگ جائیں وہ بھی مغرب کے دشمنوں کے سہارے!
گزشتہ دنوں ایک فاضل دوست کہنے لگے کہ ” عوامی انداز میں کہا جائے تو ہندوستان نے خوامخواہ مغرب نامی پڑی ہوئی لکڑی کو اپنے سر لے لیا ہے ” جب ظالم گھمنڈ میں آتاہے تو وہ ایسے ہی راستوں پر چل پڑتاہے جو اس کا انجام بن جاتےہیں،
بی بی سی ڈاکیومنٹری اور اڈانی کی درگت صرف شروعات ہے، بھارتی مسلمانوں پر قدرت نے رحم دکھایاہے ان کی مظلومانہ بزدلی پر بھی ترس کھایا ہے اور اندھادھند مظالم کرنے والوں پر قدرت نے ایک وقتی ہی سہی مشغول کرنے والی لگام مقرر کردی ہے، دیکھتے ہیں کہ ہندوستان اور مغربی سامراج کےدرمیان شروع ہونے والی یہ سَرد جنگ صلح میں بدلتی ہے یا طویل ہوتی ہے، اگر طول پکڑتی ہے تو بہت کچھ ” سیاسی تبدیلیاں ” اور ” نقاب کشائیاں ” دیکھنے کو مل سکتی ہیں _
.
.
✍: سمیع اللہ خان