شمسی و قمری ، دونوں اسلامی سال ہیے!
.
.
قرآن کریم نے رات اور دن کے بدلنے ، موسموں کے متغیر ہونے اور سورج اور چاند کی گردش کو قدرت کی عظیم نشانیاں اور تاریخ معلوم کرنے کا ذریعہ قرار دیا اور اہل عقل و دانش کو گردشِ ایام میں غور و تدبر کر کے خالق حقیقی کو پہچاننے کی کھلی دعوت دی ہے۔ نیز سورہ رحمن میں ارشاد فرمایا گیا: الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ یعنی سورج اور چاند دونوں کے ذریعے تاریخ، مہینے اور سال کا حساب معلوم کیا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانے سے سورج وچاند دونوں کا حساب چلا آرہا ہے۔ چاند کی گردش سے مربوط سال قمری “ جبکہ سورج کی گردش سے مربوط سال ” شمسی “ کہلاتا ہے۔ اسلام نے قمری حساب کو شمسی حساب پر فوقیت اور ترجیح دی ہے اور روزہ عید الفطر، عید الاضحی، ایام قربانی، حج، زکوۃ، بیوہ خاتون کی عدت و دیگر احکام شرعیہ کو قمری حساب سے مربوط کیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا اور اس کی بنیاد پر اپنی سرگرمیاں سرانجام دینا غیر شرعی اور ناجائز عمل ہے، آپ دیکھیں کہ دنیا بھر میں ”اوقات نماز کا دائمی نقشہ شمسی سال سے مربوط ہے اور کوئی اسے غلط اور ناجائز قرار نہیں دیتا۔
شمسی اور قمری حساب کے حوالے سے مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: