کرسمس کی مبارکباد دینے کا حکم ؟

    کرسمس کی مبارکباد دینے کا حکم ؟

    .

     

     

    .

    مزید احکامات

    الجواب بعون الملک الوھاب

       پہلی بات ہماری تحقیق کے مطابق ‘میری کرسمس’ (Merry Christmas) کا ترجمہ ” اللّٰہ نے بیٹا جنا” (نعوذباللہ) کسی معتبر لغت سے ثابت نہیں ہے ، بلکہ اسکا مطلب ہے عیسی علیہ السلام کا یوم پیدائش مبارک ہو ، البتہ دوسری طرف دیکھا جائے تو عیسائی چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اور 25 دسمبر کو خوشی ان کی پیدائش کی مناتے ہیں تو بلاواسطہ "میری کرسمس” کا مطلب یہی ہوا کہ نعوذباللہ اللہ کا بیٹا ہوا

       لہذا ‘میری کرسمس’ کہنا ناجائز ہی ہے . اور میری کرسمس کہنے سے بچنا ضروری ہے

        لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ کرسمس میں شرکت اور نصاریٰ کو مبارکباد دینے سے مکمل اجتناب کریں ، ورنہ سخت گنہگار ہوں گے اور اگر یہ کام ان کے دین کی تعظیم کے طور پر ہو تو اس میں کفر کا بھی اندیشہ ہے ،

      تاہم اگر کسی ایسے مقام اور ملک میں جہاں عیسائیت کی اکثریت ہو اور وہاں کرسمس میں شریک نہ ہونے یا انہیں ظاہری طور پر مبارکباد نہ دینے میں دینی یا دنیاوی نقصان کا اندیشہ ہو تو مجبوری میں نقصان سے بچنے کے لئے صرف ظاہری طور پر شرکت یا Happy Christmas کہہ کر جان چھڑا لی جائے تو امید ہے کہ گناہ نہ ہوگا ، بشرطیکہ دل میں ان کے اس دن کی محبت اور تعظیم بالکل نہ ہو

    ہدایت : اس موقع پر اپنے بچوں کی نگرانی کریں

    اُن کو کسی اسکولی پروگرام یا کسی غیر شرعی پروگرام میں جانے کی قطعاً اجازت نہ دیں..

      کما فی القرآن الکریم ::: یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ ۫ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ۟ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَۃٌ ؕ اِنۡتَہُوۡا خَیۡرًا لَّکُمۡ ؕ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ سُبۡحٰنَہٗۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗ وَلَدٌ ۘ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا ﴿سورۃ النساء : ۱۷۱﴾

      وفی فیض القدیر:(من سود) بفتح السين وفتح الواو المشددة بضبطه أي من كثر سواد قوم بأن ساكنهم وعاشرهم وناصرهم فهو منهم وإن لم يكن من قبيلتهم أو بلدهم (مع قوم فهو منهم(ج6، ص156، ط: المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ)

      وفی البحر الرائق:وقيده الفقيه أبو الليث بأن يقصد تحسين الكفر لا تقبيح معاملته وبخروجه إلى نيروز المجوس والموافقة معهم فيما يفعلون في ذلك اليوم وبشرائه يوم النيروز شيئا لم يكن يشتريه قبل ذلك تعظيما للنيروز لا للأكل والشرب وبإهدائه ذلك اليوم للمشركين ولو بيضة تعظيما لذلك اليوم لا بإجابته دعوة مجوسي حلق رأس ولده وبتحسين أمر الكفار اتفاقا حتى قالوا لو قال ترك الكلام عند أكل الطعام من المجوسي حسن أو ترك المضاجعة حالة الحيض منهم حسن أو ترك المضاجعة حالة الحيض منهم حسن فهو كافر(ج5، ص133، ط: دار الکتاب الاسلامی)

       وفی تبیین الحقائق:قال – رحمه الله – (والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام بل كفر، وقال أبو حفص الكبير – رحمه الله – لو أن رجلا عبد الله خمسين سنة ثم جاء يوم النيروز، وأهدى لبعض المشركين بيضة يريد به تعظيم ذلك اليوم فقد كفر، وحبط عمله، وقال صاحب الجامع الأصغر إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر، ولم يرد به التعظيم لذلك اليوم، ولكن ما اعتاده بعض الناس لا يكفر، ولكن ينبغي له أن لا يفعل ذلك في ذلك اليوم خاصة، ويفعله قبله أو بعده كي لا يكون تشبها بأولئك القوم، وقد قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – «من تشبه بقوم فهو منهم»، وقال في الجامع الأصغر رجل اشترى يوم النيروز شيئا لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما يعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لا يكفر.(ج6، ص228، ط: المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ)

    دار الافتاء : الاخلاص کراچی

    فقط والله اعلم باالصواب

    محمد مستقیم عفاالله عنه

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top