.
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے بانی رکن ای۔ابوبکر صاحب کی درخواست ضمانت کےبعد نظربندی کی عرضی بھی دہلی ہائیکورٹ نے خارج کردی ہے، ای۔ابوبکر صاحب جوکہ اس وقت تقریباﹰ ۸۰ سال کی عمر کو پہنچ چکےہیں وہ ناصرف پاپولر فرنٹ بلکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت کئی ملی تنظیموں کے ذمہ داروں میں سے ہیں، انہوں نے اپنی زندگی ملت کی خاطر جدوجہد کرتے گزار دی، ساؤتھ انڈیا کے مسلمان اُن کی ملی جدوجہد سے زیادہ واقف ہیں، لیکن یہ شرمناک ہےکہ پوری زندگی بےلوثی کےساتھ ملی خدمات انجام دینے والا یہ مخلص انسان ۸۰ سال کی پیرانہ سالی میں تہاڑ جیل میں قید کردیاگیا ہے، تہاڑ جیل بھارتی سنگھی استعمار کی بدترین عقوبت گاہوں میں سے ایک ہے،
ای۔ابوبکر صاحب سے اللہ تعالیٰ نے پوری زندگی اپنے دین کی خدمت لی اور ظلم و جہالت کےخلاف تعلیم و عدالت کے اسلامی محاذوں پر انہیں قبول کیا، زندگی کے آخری دنوں میں بھی اللہ تعالٰی انہیں آزما رہاہے اور وہ کسی پہاڑ کی طرح ایمانی استقامت کےساتھ دینِ برحق پر ثابت قدم ہیں، یقینًا یہ استقامت رائیگاں نہیں جائےگی،
ایسی ایمان افروز مثالیں ہمارے کانوں میں مصر و حجاز کے حوالوں سے پڑتی تھیں جنہیں کاغذ کے صفحات پر دیکھا کرتے تھے کہ دین پر ثابت قدم رہنے والے، کلمہء حق کو بلند کرنے والے اور ظالموں سے سمجھوتہ نہیں کرنے والے ضعیف و بزرگ بھی جیلوں میں آزمائے جاتے ہیں، لیکن ای۔ابوبکر صاحب جیسے ایمان و استقامت کے پہاڑوں کو بھارتی سنگھی استعمار کے ظلم کے بالمقابل ایمانی متانت کےساتھ ٹھہرتا دیکھ کر آنکھیں بھیگتی ہیں کہ "مؤمنین ” ہمارے دیار میں بھی پائے جاتےہیں _
بھارتی عدالتوں سے کوئی شکوہ نہیں ہے کہ وہ مسلم عورتوں کے زانیوں کو تو رہا کرسکتی ہے اگر وہ زانی اور قاتل آر۔ایس۔ایس کے ہندوتوا نواز غنڈے ہوں، انصاف کے یہ ادارے گجرات فسادات کے خونخوار درندوں کو تو راحت دے سکتےہیں اور مسلمانوں پر حملہ بولنے والے موجودہ بھاجپائی منسٹروں کو آرام پہنچا سکتےہیں لیکن ایسے ادارے قلم و قرطاس، تعلیم و تہذیب ترقی اور تعمیر کی صدا لگانے والے ملی اور سماجی لیڈروں کو حکومت کے سیاسی اور انتقامی مظالم سے نجات دلائیں تو حیرت ہوگی ! البتہ تھوڑی بہت شرم یا آنکھوں میں پانی ہونے کا کچھ امکان ہوتاہے اسی لیے لوگ امید کرلیتے ہیں کہ شاید ۸۰ سالہ بزرگ کے معاملے میں شرما جائیں گے جس نے اپنی زندگی سماج کی تعمیر و ترقی میں لگائی ہے !
ای۔ابوبکر صاحب ۸۰ سال کے ہیں یہی ان کی کیفیت بتلانے کے لیے کافی ہے لیکن اس کےباوجود وہ کئی طبی مسائل سے جوجھ رہےہیں جس کی وجہ سے ان کی ضمانت مسترد ہونے کےبعد ان کے اہلخانہ نے ان کی گھر پر نظربندی کی درخواست دائر کی تھی،
عدالتیں حکومتوں کے سیاسی مظالم پر اپنا فریضہ انجام نہیں دے پارہی ہیں، امیت شاہ تو پی ایف آئی پر پابندی لگانے کا ڈھول پیٹ رہا ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ملّی اور قومی ادارے بھی مسلمانوں کے مظلوم لیڈروں کے تئیں لاتعلقی کا بھیانک مظاہرہ کررہی ہیں،
معاملہ خواہ این۔آر۔سی مخالف انقلابی مظاہرین شرجیل امام، خالد سیفی یا عمر خالد کا ہو، یا کشمیر میں سنگھی پالیسیوں کی بربریت کا، یا پھر پاپولر فرنٹ کے نام پر مسلمانوں پر ظالمانہ کریک ڈاؤن کا، ہمارے اپنے ملی ادارے ان محاذ میں کہاں ہیں؟
ای۔ابوبکر صاحب تو دیگر ملّی تنظیموں میں بھی باوقار شخصیت کے حامل تھے اس ضعیفی میں ان پر ناجائز قید اور سیاسی مظالم کا کیسا قہر ٹوٹا ہے، ان کے لیے ہی کتنی ملّی تنظیموں نے زبان کھولی؟
اس طرح بھی کوئی اپنی بربادی کا نظارہ کرتاہے؟ ایسے بھی کوئی اپنی تباہی کا انتظار کرتاہے؟