ہمارے بچے مساجد سے دُور کیوں؟؟
.
.
چھوٹا بچہ گھر میں جب امی اور ابو کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے دل میں بھی ویسا کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ وہ بغیر کہے مصلے کے ساتھ آ کر کھڑا ہو جاتا ہے رکوع و سجود کی نقل اُتارتا ہے۔ بالکل سنجیدگی کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہے جیسا وہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔
پھر وہ اپنے ابو کو مسجد میں جاتے دیکھتا ہے۔ وہ بھی چاہتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ وہاں جاؤں اور بغیر کہے وہ پیچھے پیچھے مسجد چلا جاتا ہے۔ کبھی گھر سے کوئی نہ بھی جائے تو وہ خود مسجد پہنچ جاتا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہاں آ کر لوگ کیا کرتے ہیں یہاں لوگ جمع کیوں ہوتے ہیں؟
وہ مسجد آتا ہے لیکن اسے مسجد کے آداب کا علم نہیں ہوتا، وہ یہاں بھی گھر کی طرح دوڑتا بھاگتا ہے، شرارتیں کرتا ہے، کبھی اس صف میں جاتا ہے کبھی دوسری صف میں ، کبھی وضو خانے پر آ کر دوسروں کی طرح منہ ہاتھ دھوتا ہے، وہ بھی ٹونٹی کھولتا ہے اور ویسا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ ٹونٹی کھول بیٹھتا ہے۔ کافی دیر تک ہاتھ پاؤں دھوتا رہتا ہے، کیونکہ اُسے ایسا کرنے میں مزا آتا ہے، اسے اچھا لگتا ہے وہ بھی دوسروں کی طرح ’’بڑے بڑے ‘‘ کام کرنا چاہتا ہے اور وہ ان تمام کاموں میں بالکل سنجیدہ ہوتا ہے۔ دل سے کرتا ہے اپنی طرف سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دل میں خوشی محسوس کرتا ہے۔
لیکن ۔۔۔۔
کوئی بابا جی اُسے وضو خانے پر جھڑکتے ہیں۔
’’اوئے ادھر کیا کر رہے ہو‘‘ ۔
’’اتنی زیادہ ٹونٹی کیوں کھولی ہے؟‘‘ ۔
’’اتنی دیر سے پانی ضائع کر رہے ہو‘‘ ۔
’’چلو اُٹھو دفع ہو جاؤ یہاں سے ‘‘ ۔۔۔۔
بعض اوقات تو ہاتھ سے پکڑ کر، گھسیٹ کر اُسے وہاں سے نکال دیتے ہیں۔ بعض بابے اُسے کھینچ کر مسجد سے نکال دیتے ہیں۔ بعض مساجد کے بزرگ تو بچوں کو دیکھتے ہی اُن کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور جب تک وہ مسجد سے نکل نہیں جاتے یا اُن کی مرضی کے مطابق ٹک کر نہیں بیٹھتے اُنہیں چین نہیں آتا۔
کچھ نمازی تو ایسے ہیں کہ بچے دیکھ کر ہی غصے میں آ جاتے ہیں ۔ صف میں بیٹھے دیکھا تو قمیض سے پکڑ کر پیچھے کر دیا۔ کسی بچے کو باتیں کرتا دیکھا تو جا کر ایک تھپڑ لگا دیا۔ ’’بدتمیز یہ مسجد ہے چپ کرو‘‘ وہ نماز پڑھتے ہوئے ہل رہا تھا تو نماز کے دوران یا بعد میں سرعام تذلیل کر دی جاتی ہے۔
جہاں دو تین بچے اکٹھے بیٹھے باتیں کرتے یا ہنستے دیکھے فوراً انہیں مسجد سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ کیونکہ مسجد کا ماحول ’’خراب‘‘ ہوتا ہے۔ وہ قرآن پکڑتا ہے تو چھین لیا جاتا ہے کہ چھوٹا بچہ ہے قرآن گرا دے گا۔ کوئی بچہ صاف ستھرا نہیں، تب بھی دھکے دے کر مسجد کے دروازے پر کر دیا جاتا ہے۔ دوران تراویح بچے لمبی نماز سے تھک کر بیٹھے یا ساری تراویح پڑھنے کی بجائے کوئی پڑھ لی کوئی چھوڑ دی تو اس پر کوئی صاحب انہیں گھوریں گے، منہ بنائیں گے، باتیں سنائیں گے، کوئی بازو سے پکڑ کر یا جھپٹ کر اُسے زبردستی نماز میں کھڑا کریں گے یا کہیں گے؛ نہیں نماز پڑھنی تو مسجد سے دفع ہو جاؤ۔ یا اے سی والے ہال سے نکال کر گرم صحن میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہی صوتحال خواتین کے ہال میں بچیوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔۔۔۔
ان سب دُرشت رویوں ، گرم لہجوں، سخت غصے والے مزاجوں اور بچوں کے بے عزتی کرنے، ڈانٹنے ڈبٹنے اور مانے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
انہیں گھورنے، مارنے کے لئے دوڑنے اورگھسیٹنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟
ہماری مساجد بچوں سے خالی رہتی ہیں حالانکہ انہی بچوں نے تو کل جواں ہو کر پختہ نمازی بننا تھا ۔۔۔ لیکن "افسوس ان غنچوں پر جو بِن کھلے مُرجھا گئے‘‘
دوسرا سبب مساجد کے قاری صاحبان ہیں کہ جن کے پاس بچے سپارہ / قاعدہ پڑھنے آتے ہیں ۔ اب یہاں بھی ’’نظم و ضبط‘‘ کا ’’عظیم مسئلہ‘‘ سامنے آتا ہے۔ کسی بچے کی پڑھنے کی غلطی نکلی نہیں اور ٹھاہ کر کے ڈنڈا، مکا یا چپت اس کے جسم پر لگی نہیں۔ خوف اور جبر کا ماحول! ہر غلطی پر سزا، ہر بار سبق یاد نہ ہونے پر بے عزتی اور مارکٹائی یا کم از کم سرعام ’’انعام‘‘ ۔۔۔
مجھے کتنے لوگ ایسے ملے کہ جنھوں نے کہا کہ میری بچپن میں خواہش تھی کہ میں عالم دین بنوں ، حافظ قرآن بنوں ، دین سیکھوں لیکن فلاں قاری صاحب کی وجہ سے میں ایسا متنفر ہوا کہ دوبارہ مسجد داخل نہیں ہوا۔
’’میں نے فلان بچے کی خوفناک پٹائی لگتے دیکھی اور میں وہاں سے بھاگ گیا۔
مجھ پر قاری صاحب کے رعب کی وجہ سے سبق یاد ہی نہیں ہوتا تھا یا یاد کیا ہوا بھی بھول جاتا تھا‘‘ ۔۔۔
قاریوں اور نمازیوں کے ان رویوں نے ہماری مساجد کو بے رونق کر رکھا ہے۔
رسول اللہﷺ کے دور میں کیا ہوتا تھا؟ مسجد نبوی میں کیا صورت حال تھی؟
بچے تو ہر دور میں شرارتی رہے۔ بھاگنے دوڑنے، باتیں کرنے، اچھلنے کودنے والے۔ ابھی انہیں کیا پتا کہ مسجد کے آداب کیا ہیں؟مساجد میں آتے جاتے رہیں گے نمازیوں کو دیکھتے رہیں گے تو آہستہ آہستہ سب سیکھ جائیں گے کہ مسجد میں کس طرح رہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی بچے ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ کبھی اس صف میں دوڑ کبھی اس صف میں کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چڑھ گئے ۔ کبھی سجدے میں آپ ہیں تو آپ کی پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگے۔ کبھی منبر پر چڑھ گئے کبھی رونے لگے، کبھی کچھ ، کبھی کچھ۔ لیکن آپﷺ کا رویہ کیا تھا؟
سر سجدے میں ہے تمام صحابہ بطور مقتدی بھی سر بسجود ہیں۔ سجدہ طویل ہو گیا طویل سے طویل تر ۔ صحابہ کے دل میں مختلف خیالات آ رہے ہیں کہ آج اللہ خیر کرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر سجدے سے کیوں نہیں اُٹھا رہے۔ بہت دیر بعد سر اُٹھایا، نماز مکمل کی، سلام پھیرا صحابہ کو متفکر پایا تو فرمایا؛ بات دراصل یہ تھی کہ ایک بچہ میری پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگا میں نے اُسے اُتارنا مناسب نہیں سمجھا جب وہ خود ہی اُترا تو پھر میں نے سر اُٹھایا ۔ کتنی عزت کتنا احترام مسجد میں نماز کے دوران بھی ایک بچے کے کھیل یا اُس کی شرارتوں کا !
پیش نظر مضمون "ہمارے بچے مساجد سے دور کیوں ؟ "مالحمد للہ مکمل پڑھا ‘ماشاء اللہ بہت اچھا ‘ بہتر معلوم ہوا ‘ بچوں کے مساجد سے دوری کے کچھ اسباب اور ان کے حل پر خاصی روشنی ڈالی گئی ‘ حضور پاک صلعم کے اس حوالے سے کیا اخلاق تھے؟’ کیا عمل تھا ؟ ‘ بچوں کو مساجد سے جوڑنے کے کیا اسلوب کار تھے؟ ‘ کیا انداز گفتار تھا؟ بطور معنویت کے ان کو بھی شامل کیا گیا اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسے مسلمانوں کے مابین قبولیت عامہ عطا فرماۓ مسلم بچوں کو مساجد سے جوڑے پھلے ہوۓ غلط اسباب کو ختم فرماۓ آمین
امید کروں گا مزید اس طرح کے اسلامی مضامین لکھے جاتے رہیں