دوسری شادی کی ضرورت کیوں اور کس کو؟؟

دوسری شادی کی ضرورت کیوں اور کس کو؟؟

.

 

دراصل دوسری شادی عورت کی ضرورت ہے مرد کی نہیں، یہی بات عورتیں نہیں سمجھتیں تبھی اقبال نے کہا تھا

.

 

 

تو ان کو سکھا خار شگافی کے طریقے
مغرب نے سکھایا انہیں فن شیشہ گری کا

.
اس درد کو سمجھنے کے لیے عورت کا کم عمری میں بیوہ ہونا یا ان کا طلاق ہونا ضروری ہے تب انہیں سمجھ آتا ہے کہ کوئی مجھے اپنی دوسری بیوی بنا لیتا اور عزت سے رکھتا میں کسی کی محتاج نہ رہتی نہ ماں باپ کی نہ بھائی بہن کی، ایک بیوہ کی پوری زندگی داؤ پر لگی رہتی ہے اور وہ شہر کی زندگی میں تو بہر حال محفوظ نہیں ہے اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے اللہ نے قرآن میں مردوں کے لیے نکاح کے احکامات میں دو سے شروعات کی اور مرد پر ایک سے زائد نکاح کا بوجھ ڈالا گیا تاکہ اس کے مال سے دوسری عورت اور اس کے بچے عزت کی زندگی گزار سکیں یہ احکام عورتوں کی بھلائی کے لیے ہی دیا گیا تھا رسول اللہ ص اور ان کے صحابہ رض نے عملاً کر کے دکھایا ورنہ ان کے اتنا بڑا زاہد و عابد اور کون تھا؟ وہ اکثر اوقات ساری رات نمازوں میں گزار دیتے تھے یہاں تک کہ عورتیں رسول اللہ کے پاس شکایت لے کر آنے لگیں کہ میرے شوہر میرے بستر پر قدم کم ہی رکھتے ہیں۔
کہتے ہیں اکثریت اقلیت کو کھا جاتی ہے آزادی کے پہلے ایک صاحب استطاعت مرد دو نکاح آرام سے کر لیتا تھا اگر کسی کی بیٹی و بہن بیوہ ہو جاتی تھی تو مرد حضرات ان کی توجہ ادھر مبذول کراتے تھے کہ اللہ نے تمہیں دو مکان اور دولت سے نوازا ہے فلاں کی بیوہ کو اپنے نکاح میں لے لو اور ان کے گھر والے بھی بیوہ و مطلقہ کا نکاح فورآ کر دیتے تھے حالات انگریزی دور حکومت میں بھی بہت اچھے نہیں تھے لیکن جب سے آزادی ملی تب سے جدید طرز تعلیم نے کفر کی آمیزش کر کے ایک خاص مزاج بنایا اور نئی نسل کو بالکل بگاڑ دیا اور اسلامی فکر سے دور کر دیا بلکہ سچ کہیں تو نماز و روزہ اور حج کے علاؤہ کچھ باقی نہ رہا اقبال نے اسی لیے کہا تھا "

.

 

 

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو،
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر”

.
سو بڑی محنت و یکسوئی سے اس کام کو کیا اور پوری طرح پھیر چکے، انہوں نے نئی تعلیم وضع کی اور اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں عورت اپنے شوہر کے ناجائز رشتے برداشت کرنے کو تیار ہے لیکن ایک عدد شریف سوکن قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اللہ و رسول کے احکامات سے کھلی سرتابی اور بغاوت ہے اور اس کا جو انجام ہونا چاہیے وہ آپ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
اس فکر کو عام کرنے کے لیے بچوں کو بچپن سے ہی اسلامی لٹریچر پڑھانا چاہیے اور انہیں مردوں اور عورتوں کے حقوق بتانے چاہیں۔ ہم سب نے اسلام کبھی حلق کے نیچے اتارا ہی نہیں، عائلی قوانین تو حلق کے نیچے مرد و زن میں سے کسی کے کبھی نہ اتر سکا، لڑکے جہیز لیتے رہے کیا نمازی کیا پرہیزگار حالانکہ یہ انتہائی رذالت و ذلت کا کام ہے کہ تم کسی کی بیٹی بھی لو اور اس کے باپ سے پیسہ بھی لو؟ لڑکیاں دوسرے نکاح کی مخالفت کرتی رہیں کیوں کے انہوں نے کبھی قرآن ترجمہ سے پڑھا ہی نہیں اس کے معنی و مطالب تفسیر پر غور و فکر بھی نہیں کیا نتیجہ معاشرے میں کنواری عمر دراز عورتوں کی بھرمار اور بیوہ و مطلقہ کی بہتات ہے اور عورت کسی صورت مرد کے دوسرے نکاح کو راضی نہیں ہے چاہے عالمہ فاضلہ ہی کیوں نہ ہو؟ بس زنا کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور عام اور آسان ہیں روز اس راستے کو ہموار کرنے کی فکر لیے ہوئے تہذیب کے آزر کام میں لگے ہوئے ہیں کیوں کہ ہم سب نے مل کر جائز راستے بند کر رکھے ہیں اور محمد رسول اللہ کے دین کا تماشہ بنا رکھا ہے۔

از: تاج الدین محمد

1 thought on “دوسری شادی کی ضرورت کیوں اور کس کو؟؟”

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top