مسلمان سرکس کے ہاتھی

مسلمان سرکس کے ہاتھی

.

 

 

 

.
گجرات اور ہماچل پردیش کے انتخابات کے نتائج سامنےآچکے ہیں ، گجرات کے انتخابات میں کانگریس پارٹی نے لاکھ کوششوں کے بعد چند سیٹوں پر اپنی پہچان کو بنائے رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اب کرناٹک انتخابات کی باری ہے جس میں کانگریس ، جے ڈی یس اور بھاجپا تینوں ہی اپنی اپنی حکومتیں قائم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں ۔ لیکن بھارتیہ جنتاپارٹی کو چھوڑ کرکانگریس اور جے ڈی یس اگر اپنا ووٹ بینک کسی کو مان رہے ہیں تو وہ مسلم ووٹروں کو ہے ۔ دونوںہی سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹ بینک کے فارمولے میں مسلمانوں کو کامن ووٹر بنالیا ہے ۔ اگر کسی حلقے میں برہمن امیدوار کو ٹکٹ دی جارہی ہے تو فارمولہ یوں بنتاہے ۔ مسلمان اور برہمن مل جائیں تو کامیابی ہماری ، کسی حلقے میں لنگایت امیدوار ہے تو کہا جاتاہے کہ لنگایت اور مسلمان مل جائیں تو جیت ہماری ، یس سی یس ٹی امیدوار ہے تب بھی یہ کہا جاتاہے کہ اگر مسلمانوں کے ووٹ ہمیں مل جائیں تو جیت ہماری ، یہاں تک کہ گوڈا ، وکلیگا ، شیٹی جیسی قوموں کے امیدوار بھی مسلمانوں کے ووٹوں کے بھروسے میں ہی اپنا الیکشن لڑنے کی کوشش میں ہیں ۔ جب کہ کسی حلقے میں مسلمانوں کی اکثریت ہو ، مسلمان امیدوار کو جتایا جاسکتاہے تب بھی مسلمانوں کو دونوں ہی سیاسی پارٹیاں ٹکٹ دینے کے بجائے دوسری ذاتوں کو ٹکٹ دے کر کامیاب بنانے کی سمت میں فارمولہ بناتے ہیں اورمسلمان صرف ووٹر بن کر، سیاسی امیدواروں کے پیچھے جئے جئے کرتے ہوئے یا پھر پانچ سو ہزار روپئے لیکر اپنے آپ کو مسلمانوں کا لیڈر بنوانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی طاقت کو ظاہر کرنا ہی نہیں چاہ رہے ہیں نہ ہی سیاسی پارٹیوں کے سامنے اپنے مطالبات رکھ کر سیاسی وجود کو بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ آج ہر کوئی مسلمانوں کے ذریعے ، مسلمانوں کے دم پر اپنی سیاست کرنا چاہ رہاہے ، مثال کے طورپر اگر کسی حلقے میں 60 فیصد ووٹ مسلمانوں کے ہیں ، 20 فیصد ووٹ لنگایت ، 10 فیصد ووٹ دوسرے طبقات کے ہونگے اور 10 فیصد ووٹ برہمنوں کے ہیں تو ٹکٹ مانگنے والا شخص برہمن ہوتو وہ یہ کہہ رہاہے کہ اگر مسلمانوں کے ووٹ مجھے مل جائیں تو لنگایتوں اور دوسرے طبقات کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوگی اور میں آسانی کے ساتھ الیکشن جیت جائوں گا ، جبکہ ٹکٹ کا مطالبہ کرنے کا حق تو یہاں 60 فیصد والے مسلمانوں کا ہے جو خود ہی نہیں چاہ رہے ہیں کہ وہ ٹکٹ حاصل کرتے ہوئے دوسرے طبقات کا ووٹ حاصل کرنے کی جد وجہد کریں ۔ دراصل مسلمان اس وقت سرکس کے اس ہاتھی کی طرح ہوچکے ہیں جو بچپن میں چھوٹی سی زنجیر سے بندھا ہوا ہوتاہے اور وہ بڑا ہوکر بھی یہی سوچتاہے کہ وہ اس زنجیر کو نہیں توڑ سکتا۔ مسلمان بھی اسی خوف میں مبتلاہیں کہ وہ دوسرے مذاہب کے ووٹ بٹورنے میں ناکام ہوجائیں گے ۔ جبکہ سیاست صرف پارٹی کا کھیل نہیں ہے بلکہ پیسہ ، ذات اور حکمت کا نام ہے جسے خرچ کرنے کے لئے مسلمان تیار نہیں ہیں ۔ بعض لوگ اپنے سماج میں سے لیڈر پیدا کرنے کے بجائے اپنے سماج کا سودا کرتے ہوئے الیکشن کا کنٹراکٹ لے لیتے ہیں اور اگر کوئی مسلمان اُس الیکشن میں کھڑا بھی ہوجاتاہے تو اسے ختم کرنے کیلئے پیکیج لے لیتے ہیں بعد میں عام لوگوں کا یہی رونا ہوتاہے کہ ہمارا کوئی لیڈر نہیں ہے ۔ یہ بھی ہے کہ قوم کو سامنے رکھ کر سودے بازی کرنے والے چند لوگ ہیں لیکن ان چند لوگوں کے سامنے قوم اپنی پوری طاقت کو کیوں برباد کررہی ہے ۔ آنے والے اسمبلی انتخابات بہت ہی معنی خیز ہیں ، اس صورت میں سودے بازی کرنے کے بجائے سیاسی طاقت کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے ۔ اپنے لوگوں میں سے ہم کسی کو طاقت دیتے ہیں تو یقیناًکل ایک دن دوسری قومیں طاقت دینے کیلئے آگے آئیں گی ۔کوئی قوم اس وقت ہارتی ہے جب وہ کوشش کرنا چھوڑ دیتی ہے ۔

 

 

 

از:۔مدثراحمد شیموگہ کرناٹک

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top