آخر ملت کی بیٹیوں کے قدم کیوں بہکے؟

آخر ملت کی بیٹیوں کے قدم کیوں بہکے؟

.

 

 

 

.
آج کل سوشل میڈیا پر اور اخباروں کے صفحات پر کچھ ایسی خبریں.نظروں کے سامنے سے گذرتی ہیں کہ آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں جسم لرزہ براندام ہو جاتا ہے دل و دماغ پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ ایک باپ کی پگڑی کیسے اچھل گئی گھر کیسے ماتم کدہ بن گیا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اچانک نا گہانی حادثات ہوتے ہیں گھر کا کوئی فرد موت کی آغوش میں سما جاتا ہے تب گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہو جاتا ہے مگر آجکل تو جیتے جی ایسا منظر پیش آنے لگا ، ماں باپ کتنے ناز و نعم سے اولاد کی پرورش کرتے ہیں بیٹے اور بیٹیوں کو آنکھوں کا تارا کہتے ہیں ایک باپ فقیر ہو کر بھی بیٹے کے لئے بادشاہت کا خواب دیکھتا ہے بیٹی ہے تو اس کے لئے اچھا رشتہ تلاش کرتا ہے اور جب بیٹی کی وداعی ہوتی ہے تو باپ کہتا ہے اے میری دختر جان شرافت دکھ سہنے کی ہمت کرنا، اپنے بڑوں کی عزت کرنا، ساس کی بیٹی بن کر رہنا، ان کی سنا اپنی کہنا ، ماں کہتی ہے کان میں آکر ،روئی کھوئی شکل بنا کر ، بیٹی یہ ہے وقت جدائی، تو تو ہوئی ہے آج پرائی، میں نے تجھے نازوں سے پالا، تو ہے میری آنکھوں کا اجالا، چھانے لگا گھر میں اندھیارا، چھوٹ رہا ہے آنکھوں کا تارا، خوشیوں میں پوشیدہ غم ہیں، دودھ کی میرے تجھ کو قسم ہے، آبرو دنیا میں رہ جائے، کوئی نہ تجھ پہ انگلی اٹھائے پھر ایک بار باپ لڑکھڑاتے ہوئے اور آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے قدم بڑھاتا ہے اور بیٹی سے لپٹ کر کہتا ہے، لے کے چلا کوئی باپ کی لاٹھی اور ماں کے گلے کا ہار ، بیٹی دیکھ ڈولی ہے تیار بیٹی دیکھ ڈولی ہے تیار تجھے شوہر کی خدمت کرنا ہے، بیٹی آج سے تیرے نام کے ساتھ میرا نام نہیں بلکہ تیرے شوہر کا نام ہوگا، اب ولدیت نہیں بلکہ زوجیت لکھی جائے گی، تیرے جنم کے ساتھی ہم تھے اور
تیرے کرم کا ساتھی شوہر اور تیری سسرال والے ہیں بیٹی یہی قانون قدرت ہے ڈولی کہیں سے اٹھتی تو ارتھی کہیں اور جگہ سے اٹھتی ہے بیٹی تو جس گھر میں پیدا ہوئی ہے اب اسی گھر میں آئے گی تو مہمان کہلائے گی بیٹی یا درکھنا شوہر کا وہ مقام ہے کہ اتفاقاً باپ اور شوہر ایک ساتھ پانی مانگ دیں تو باپ سے پہلے شوہر کی خدمت میں پانی پیش کرنے کا حکم ہے،، جابیٹی جا تیرا گھر آباد رہے ، تیری خوشیاں آباد رہے۔ واقعی جب قاضی نکاح کے لئے لڑکی سے اجازت لینے جاتا ہے تو وہ عجیب منظر ہوتا ہے نکاح کی اجازت دیتے ہوئے لڑکی کا وجود کانپ جاتا ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ بس اب میرے نام کے آگے آج سے میرے باپ کا نام ختم آج میرا سفر سسرال کے لئے ہوگا اور وہاں سے دوسرا سفر قبرستان کے لئے ہوگا بیٹی کی وداعی کا منظر بڑا غمناک ہوتا ہے پھر بھی نہ جانے کیسے آج ہماری ملت کی بیٹیوں کے قدم بہک گئے اور اپنے خاندان کی ناک کٹوانے لگیں اور بے شرمی و بے حیائی اور بے غیرتی یہاں تک کہ مرتد تک ہونے لگیں، ایک خدا کو ماننے والی منکر خدا سے عقد کرنے لگیں، دین و دنیا دونوں برباد کرنے لگیں بیٹیوں کے اندر اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ گھر کی دہلیز کے باہر قدم نکل گیا اور باپ کی پگڑی کو روندتے ہوئے، ماں کے دودھ اور اس کے ارمانوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ، رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے منہ موڑتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کفر کے ہاتھوں میں دیکر ساتھ رہنے اور ساتھ جینے مرنے کا فیصلہ کر لیا اور اقرار بھی کر لیا آج تو ماحول اتنا خراب ہو گیا کہ لوگوں کی زبان سے یہ دعا نکلنے لگی کہ اے اللہ بیٹی دینا تو دولت بھی دینا اے اللہ بیٹی دینا تو ہماری عزت کو سر بازار نیلام ہونے سے بچانا۔

 

 

جاوید اختر

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top