آخر مسلمانوں پر اس طرح کے حالات کیوں آرہے ہیں ؟
.
.
مولانا محمد قمرالزماں ندوی
ملک عزیز ہندوستان میں خصوصا اور پوری دنیا میں عموما جو حالات ہیں، اور انسانیت جس سطح پر پہنچ گئی ہے، اخلاقی قدریں جس طرح مٹ رہی ہیں، انسانیت کا خون جس طرح بہہ رہا ہے ، انسان انسانیت کے مقام و مرتبہ کو چھوڑ کر حیوانیت اور درندگی کے جس مقام پر پہنچ گیا ہے اس کا نقشہ کھینچنا بھی دشوار اور مشکل ہے۔ ہر جگہ جنگل راج اور لاقانونیت کا ماحول ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی تصویر ہے قانون اور ضابطہ ہے تو وہ صرف کمزوروں کے لئے ۔ غرض دنیا ظهر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس (خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے لوگوں کے اپنے کرتوت کی وجہ سے ) کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے جب انسان اپنے پیدا کرنے والے مالک حقیقی جس نے اسے رحم مادر ہی میں حلیق دی اسے ہی بھلا دے، اسے ہی فراموش کر دے تو اس سے جس درجہ کا ظلم وستم اور نا انصافی ہو وہ کم ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ان تمام جرائم اور ان تمام حالات کے پیش آنے کے ذمہ داریہ قوم مسلم اور دعوت امت ہی ہے اس لئے کہ ان کے پاس اللہ تعالی کا دیا ہوا علم یعنی قرآن مجید موجود ہے جس میں انسانوں کی گھریلو زندگی سے لے کر معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کا ہی نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے مسائل اور مشکلات کا حل موجود ہے لیکن افسوس کہ ہم سے کوتاہی ہوئی اور ہم نے خود اس آخری اور آسمانی و الہامی کتاب ہدایت پر کما حقہ عمل نہیں کیا اور نہ ہی دوسری قوموں کے سامنے اس کا تعارف کرایا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہیئے کہ ہم نے دعوت و تبلیغ کا کام چھوڑ دیا اس دین کو دوسروں تک پہنچانے میں ہم سے کوتاہی ہوئی ۔ اگر آج امت مسلمہ اپنا مقصد دیگر اقوام کو خیر کی طرف دعوت دینا بنا لے تو وہ تمام بیماریاں ختم ہو جائیں اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو جائے اور خود مسلمانوں کا آپسی انتشار ختم ہو جائے کیونکہ جب یہ امت اس عظیم مقصد یعنی دعوت خیر پر اکٹھا ہو جائے گی اور یہ سمجھ لے گی کی علمی و اخلاقی اعتبار سے اقوام کی تربیت ہمارے ذمہ ہے تو دنیا میں بہار آجائے گی اور پوری دنیا امن و شانتی اور محبت و آشتی کا گہوارہ بن جائے گی۔
اس وقت تک جو دنیا قائم ہے نہ یہ اپنی محنت و قابلیت کی وجہ سے ہے اور نہ موجدوں کے ایجاد اور حکومتوں کے حسن انتظام کے نتیجہ میں قائم ہے اگر اس دنیا کو اپنی قابلیتوں،صنعتوں، ذہانتون معلومات، بڑے بڑے عالموں دانشوروں ادیبوں اور فلسفیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہوتا تو کب کی یہ سل ختم کر دی جاتی لیکن یہ اس لئے باقی ہے کہ ابھی ہدایت کے امکانات باقی ہیں. ابھی وہ امت باقی ہے جو ہدایت کا سبق دینے والی ہے اور جو ہدایت کا تحفہ دینے اور انسانیت پر رحم کھانے والی ہے اور لوگوں کو راحت و آرام دینے کے لئے اپنی راحت قربان کرنے والی ہے ۔ یہ نہ صرف مسلمانوں کے لئے ضروری ہے بلکہ عام اور نوع انسانی کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے آج کے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان دعوت کے کام کو اپنائیں اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ نہیں اسی کے ساتھ یہاں کی اکثریت کے سامنے خدا کا ازلی اور ابدی پیغام پہنچائیں، خدا ترسی، اخلاقی بلندی اخلاص و ایثار کا نمونہ پیش کریں ۔ اسلام کے صرف عقید ہ کا نہیں بلکہ اسلامی اخلاق اسلامی سیرت کا نمونہ نہیں اور ایسی زبان اور اسلوب میں اپنی گفتگو رکھیں جس کو وہ مجھیں اور متاثر ہوں۔