مسلمانوں کا ہوٹلوں اورڈھابوں میں کھانے کا بڑھتاہوارجحان

 

 

 

بزرگوں کی زبانی ہمیشہ یہ ہدایت سنی گئی ہے کہ:روحانیت کی حفاظت اورباطنی انوار کے حصول کے لیے باہر کے کھانوں سے احتراز بہت ضروری ہے۔اس سلسلے میں اپنے ایک بزرگ حضرت قاری منیراحمد صاحب نقشبندی رحمہ اللہ سے ایک واقعہ بھی سناتھا۔یہ واقعہ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کے ایک صاحبزادے کا ہے۔تیرہ سال کے کم سن یہ صاحبزادے روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئے تھے ۔کشف کرامات میں بھی بہت اعلیٰ اورمضبوط مقام حاصل کرلیا تھا – ان کی کشفی کیفیات عام حدود سے متجاوز ہورہی تھیں۔ خلق کا ہجوم ہونے لگا،بھیڑجمع ہونے لگی۔ان کی زیارت وملاقات کے لئے دوردراز سے لوگ آنے لگے۔لوگ سوالات کرتے اوریہ کشف کے ذریعہ بہت سے حالات واحوال بتاتے۔اس سے بے انتہاء شہرت ہوگئی۔حضرت مجدد صاحب کو ڈرہواکہ کہیں آگے چل کر یہ کوئی فتنہ کی شکل نہ ہوجائے۔اس لئے وہ اپنے صاحب زادے کو لے کر دہلی اپنے مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی رحمہ اللہ کی خدمت میں تشریف لائے اوراپنے صاحبزادے کی اس حالت کا ذکر کیا اورعلاج چاہا۔حضرت خواجہ قدس سرہٗ نے فرمایا:
ایک دِن بازار کا کھانا کھلادو! علاج ہوجائے گا۔چنانچہ ان کے والد حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے مرشد کی تجویز کے مطابق صاحب زادے کو بازار کاکھانا کھلادیا ۔جیسے ہی انہوں نے یہ بازاری کھانا کھایا ان کی وہ کشف و الی کیفیت ختم ہوگئی۔
اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ بازار کے کھانے کا روحانی کیفیات پر کتنا اثر پڑتاہے-

روحانیت اورباطنی نور اورایمانی کیفیات سے محروم ہونے کے دیگر اسباب کے ساتھ یہ بھی بڑا سبب ہے جو تیزی سے پھیلتاجارہاہے۔

کچھ سالوں پہلے تک مسلمانوں میں عام طور پر باہر کے اورہوٹلوں کے کھانوں کا رجحان بہت کم تھا۔مسافرین،ہوٹلوں میں جا تے یا بے حد ضرورت کے موقع پر ہوٹلوں کا رخ کیا جاتا۔اورہوٹل بھی عام طورپر ایسے ہی علاقوں میں زیادہ کھولے جاتے تھے،جہاں مسافروں کی آمدورفت ہوتی تھی،اورڈھابے بڑی شاہ راہوں پر فاصلوں کے ساتھ ہوتے تھے۔جن پر ٹرک ڈرائیوروں لانگ روٹ کی بسوں کے مسافر وں اورکارکے ذریعہ لمبا سفر کرنے والوں کے لئے کھانے اور آرام کاانتظام ہوتاتھا۔ان ڈھابوں پر شراب نوشی کا بھی انتظام ہوتاتھا۔عام مسافر وہاں جانا اور رکنا پسند بھی نہیں کرتے تھے۔مگر آج یہ حال ہے کہ ہوٹل بھی ہرجگہ ہر محلہ میں اورڈھابے بھی فاصلوں کے ساتھ نہیں بلکہ قطار در قطار شہروں سے نکلتے ہی دور تک آپ کو سجے سجائے،آراستہ کیے ہوئے،بجلی کے قمقموں کے ساتھ بے شمار نظر آئیں گے۔مسلمانوں کا وہ طبقہ جو غربت و افلاس سے نکل کر آسودہ حالی کی طرف نیانیا آیاہے اورمڈل کلاس میں شامل ہوگیا ہے،وہ اس ہوٹل اورڈھابے والی وباکا شکار زیادہ نظر آرہاہے۔الا ماشاء اللہ۔اس طبقہ کے نوجوانوں میں ہوٹلوں اورڈھابوں میں کھانا کھانےکا رجحان روز بروز بڑھ رہاہے۔اس کے علاوہ اوربھی کئی طرح کی سماجی برائیاں اورخرابیاں اس طبقہ کو اپنی جکڑ میں لے رہی ہیں۔

کچھ ڈھابوں اورہوٹلوں میں بڑے پیمانے پر تزئین و آرائش کے ساتھ خواتین وبچوں کے لئے خصوصی انتظامات و اہتمام اورمسلمانوں کے لئے نماز پڑھنے کی مخصوص جگہ بھی بنادی گئی ہیں۔جس کی وجہ سے مسلم گھرانوں نے لپک کر ان ہوٹلوں اورڈھابوں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔دیکھاجاتاہے کہ یہ ہوٹل اورڈھابے مسلم نوجوانوں بچوں اوربرقع پوش مسلم خواتین سے بھرے اورآباد دکھائی دیتے ہیں۔چھٹیوں کے دن یہاں خاص طورپر رش رہتاہے۔بے پناہ ہجوم ہوتاہے،اور لوگ اپنی باری کا انتظا رکرتے ہیں۔اب چونکہ عام طورپر ان ڈھابوں کا اورہوٹلوں کا ماحول کسی قدر پاکیزہ،صاف ستھرا،بدتمیزی اورمنشیات کے جھگڑوں سے دورہوتاہے۔اورفیملیوں کے لئے بھی مخصوص جگہ ہوتی ہے۔جہاں پردہ بھی آسانی سے کیا جاسکتاہے۔اس لئے یہاں آنے پر حرام اورناجائز ہونے کا تو حکم نہیں لگایاجاسکتا،لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے مقامات اورجگہوں پر کھانا پینا بہت مہنگا ہوتاہے۔جس میں اسراف اورفضول خرچی کی صورت واضح ہے۔

یہاں کے کھانے یقینا ذائقے دار چٹ پٹے اورخوش وضع ہوتے ہیں۔لیکن ان میں مرچ مسالے بہت ہوتے ہیں اور یہ چیزیں صحت کے لئے بہت نقصان دوہ ہوتی ہیں۔باسی کھانے اوران کے بچے ہوئے مسالے دوسرے دن کے کھانے میں شامل کرلئے جاتے ہیں جس سے صحت کو نقصان ہوتاہے۔عام طورپر ایسے کھانوں سے سستی،کاہلی،نیند نہ آنے کی شکایت،ذہنی عدم سکون ،عدم یکسوئی اور دیگر کئی طرح کے امراض جنم لیتے ہیں۔

اس طرح کے ہوٹلوں اورڈھابوں میں ظاہری صفائی ستھرائی کا تو خیال کافی رکھاجاتاہے اوروہ نظر بھی آتاہے لیکن باطنی صفائی اورطہارت کے اہتمام کی کسے خبر ہے۔نظافت کے ساتھ طہارت کا خیال ولحاظ رکھتے ہوئے جو کھانا بنایاجائے گا اس کے اثرات الگ ہوتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب مسلم گھرانوں میں مستورات کھانا بنانے کا عمل بغیر وضو کے انجام نہیں دیتی تھیں۔طہارت و نظافت کے ساتھ ذکر و اذکار کا بھی خاص طورپر اہتمام ہوتاتھا۔اس سے گھر کے ماحول میں ایک عجیب نورانیت اور بچوں میں صالحیت کا رنگ نظر آتاتھا۔

بہت سارے نوجوان لمبا سفر کرکے صرف کھانے کے لئے دوردراز ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں اوروہاں چند گھنٹوں میں ہزاروں روپے اڑادیتے ہیں۔ہوٹلوں اورڈھابوں پر کھانے کی لت جب ایک دفعہ لگ جاتی ہے تو وہ شراب کے نشہ کی طرح نہ چھوٹنے والی عادت بن جاتی ہے۔وہاں جائے بغیر بے چینی بڑھنے لگتی ہے۔پیسہ نہیں ہے یا بجٹ اجازت نہیں دیتا تو قرض لے کر یہ شوق پورا کرتے ہیں۔یہ ایسی مضرعادت ہے کہ اس سے گھروں کا بجٹ تو متأثر ہوتاہی ہے بعض دفعہ بچوں کی تعلیم پر بھی برے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔آپ کو ایسے نوجوان بھی نظر آجائیں گے ،جو گھر کے زیوارت بیچ کر پارٹیاں کرتے ہیں اوردوستوں کے ساتھ تفریح میں دھڑلے سے یہ دولت ضائع کرتے ہیں۔

ہوٹل اورڈھابہ کلچرکا ایک بڑانقصان یہ بھی ہے کہ گھروں میں خواتین میں کھانا بنانے کا رجحان کم ہورہاہے،وہ اب کھانا بنانے سے کتراتی ہیں جب کہ پہلے کے مقابلے میں عورتوں کے لئے اب کھانا بنانے کی سہولیات زیادہ ہیں۔ان کے لئے ان کے کچن میں کافی آسانیاں فراہم کردی گئی ہیں۔جن کا پہلے تصوربھی نہیں تھا۔مہمان کے آنے پر یا گھرکے لوگوں کے لئے گھر میں کھانا بنانے کے بجائے،باہر سے کھانا منگانے یا ہوٹل پر کھاناکھانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔اس سے عمدہ پکوان اورلذیذ کھانے بنانے کا فن جو کسی زمانے میں اچھے گھروں کی علامت سمجھاجاتاتھا،بہت متاثر ہورہاہے،آج ہمارے گھر وں کی نوجوان لڑکیاں اس میدان میں بہت پیچھے ہوتی نظرآرہی ہیں۔کھانا بنانے اورپکوان تیارکرنے کے فن سے عد م واقفیت کی بناپر کبھی سسرال میں کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

سال میں دوچاردفعہ یا کسی خاص موقعہ پر ہوٹل میں کبھی کبھار کھانا کھالیاجائے تو اس سے فرق نہیں پڑتا اوریہ کوئی عیب کی بات نہیں،لیکن اگر اس کی لت پڑجائے کہ نہ جانے سے بے چینی بڑھ جاتی ہو،تو اس سے پھر ،بہت سےمعاشی،معاشرتی،عائلی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

شادی سے پہلے جو جوان بیچیاں ہوٹلوں پر کھانے کی عادی ہوتی ہیں وہ شادی کے بعد بھی اسی عادت کی شکار رہتی ہیں۔وہ اپنے شوہروں سے باہرکے کھانوں کی ضد کرتی ہیں اوراس کے لئے بعض مرتبہ دباؤ بھی ڈالتی ہیں۔اوران کو نہیں لے جایاجاتا تو وہ دوسروں کے ساتھ بھی چلی جاتی ہیں۔ ایسی رپوٹیں مصدقہ ذرائع سے مشہور ہیں۔یہ ہوٹلوں کی لت کئی لڑکیوں کو اغیار کے ساتھ جانے پر بھی مجبور کردیتی ہے-

آج بہت سے ہوٹلوں میں مسلم لڑکیوں کے ایسے حالات بھی نظرآجاتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتاہے۔ پتہ پانی پانی ہوجاتاہے۔اکثر ریستوران میں نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کو آپ قابل اعتراض حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔ان میں کئی نقاب پوش خواتین بھی شرم وحیا اورغیرت کی دھجیاں اڑاتی نظر آجائیں گی۔

قوم میں اس تعلق سے بھی بہت شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ورنہ اس کے سنگین نتائج آنے شروع ہوچکے ہیں۔ کیا ہمیں خدا کا یہ فرمان یاد نہیں ہے ،جو سورہ تحریم میں پہلے ہی رکوع میں ہے
اے ایمان والو!بچاؤ اپنے آپ اوراپنے اہل و عیال کو جہنم کی اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اورپتھر ہیں۔
خدا کا یہ فرمان ہمیشہ پیش نظر رہنا ضروری ہے۔

مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی
امام و خطیب مسجد الفاروق ولیمس ٹاؤن بنگلور

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top