انسان اپنی مرضی کا خواب دیکھنے کی کتنی حد تک صلاحیت رکھتا ہے؟

إذا تعلق القلب المحب بالمحبوب تراه لايغيب عنه حتى بالمنام
(جب مُحِب کا دل مَحبوب سے جُڑ جائے تو تم دیکھنا مُحِب سے مَحبوب نیند میں بھی غائب نہیں ہوگا)
حقیقت ہے کہ جب کسی شے کی محبت رگ و پے میں گھس جائے” قلب و ذہن میں سرایت کر جائے” گوشت پوست میں گھس جائے تو شعور و لا شعور میں وہ شے یاد رہتی ہے
(1) خواب کی تین اقسام میں سے ایک ہوائے نفس بھی ہے وہ یہی تو ہے دن بھر شعوری یا لا شعوری طور پر بندہ کسی شے کے بارے سوچتا رہتا ہے وہی ذہنی خیالات خواب بن کے نظر آتے ہیں
خواہ محبوب شے کو کثرت سے سوچیں یا مکروہ شے کو سوچیں وہ خواب بن جاتی ہے
(2) روح کی اقسام میں سے ایک روحِ منامی ہے یہ حالتِ نیند میں جسم سے نکل جاتی ہے اسی کا فعل و عمل خواب بنتا ہے
یہی روح محبوب کی تلاش میں نکلتی ہے اور عالَمِ امثال میں ملاقات کرتی ہے جو خواب بن جاتا ہے
کیونکہ روح کا مسکن اِس کا گھر دل ہوتا ہے تو روح نکل جائے عالِمِ امثال میں سیر و تفریح کرتی پِھرے اچھی بات دل میں کَلیاں کِھل اُٹھتی ہیں اور چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے
اب کیونکہ روح ہر چھوٹے بڑے میں ہوتی ہے اور روحِ منامی بھی ہر ایک میں ہوتی ہے اسی وجہ سے بچے بھی نیند میں مسکراتے نظر آتے ہیں کہ ان کو خواب نظر آتے ہیں مگر وہ بیان نہیں کر پاتے
اس کی دلیل یہ ہے کہ بچہ اگرچہ عقل مند نہیں ہوتا مگر روح رکھتا ہے اور عقل مراتب طے کر کے پختہ ہوتی ہے بچہ عقلمند آہستہ آہستہ ہوتا ہے مگر روح نہیں بڑھتی
روح ایسی مخلوق ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوتی بخلاف عقل و جسم کے تو بچوں کی روح مکمل ہوتی ہے ہاں عقل کم ہوتی ہے اسی وجہ سے کہ روح مکمل ہے بچوں کا خواب دیکھنا ممکن بلکہ نفس الامر میں وجود رکھتا ہے
روح پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا عقل پر ہوتا ہے اسی وجہ سے بندہ چاہ کر بھی من پسند خواب نہیں دیکھ سکتا ہاں مگر کثرتِ یاد سے روح خواب کے میدان میں عمل کرتی ہے
حضرت ابن سیرین رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں
میں نے خواب میں کسی نامحرم عورت کو دیکھا تو نظر پھیر لی کیونکہ اسے دیکھنا میرے لیئے جائز نہیں ہے
راوی کہتے ہیں ابن سیرین رحمۃاللہ علیہ کی خواب والی عقل ہماری بیدار عقل سے اچھی ہے
انسان کبھی خواب میں ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے میں خواب دیکھ رہا ہوں
اور کبھی خواب میں خواب دیکھ رہا ہوتا ہے
ابن سیرین کے واقعے سے ایک لطیف نکتہ معلوم ہوا کہ جب عقل پر قابو پا لیا جائے تو خواب پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے
کیونکہ عقل تو حالتِ بیداری میں قابو میں رہتی ہے مگر جو خواب میں قابو پا لے گویا ایک حد تک روح و عقل میں موافقت قائم رکھ سکتا ہے
اور یہ شدید ریاضت کے بعد حاصل ہوسکتا ہے
جیسے مخصوص وظائف سے میت کو خواب میں دیکھنا ممکن ہے
اور استخارہ کر کے خواب میں ہاں یا نہ کا اشارہ لیا جاتا ہے
ویسے ریاضتِ شدیدہ سے کسی حد تک مرضی کے خواب ممکن ہیں
ھذا ماعندی و الله اعلم و علمہ اتم و احکم
✍