"اجمیر درگاہ پر ہندو سینا کا متنازعہ دعویٰ: مسلمانوں کے مذہبی مراکز پر لگاتار قبضے کی کوشش!”
.
.
.
.
بابری مسجد کو ہڑپ کرنے والوں کی لالچی نظریں اب اجمیر درگاہ پر آچکی ہیں۔ جانیں مسلمان کیا کریں؟
ہندو سینا نے اجمیر کورٹ میں یہ پیٹیشن داخل کردی ہےکہ اجمیر درگاہ پہلے شِیوا مندر تھا۔
ہندو سینا نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ اجمیر درگاہ کو بھگوان شری سنکٹ موچن مہا دیو وِراجمان مندر قرار دیا جائے ۔
یہ پیٹیشن ہندو سینا کے صدر وِشنو گپتا کے ذریعے دائر کی گئی ہے جس پر غالباً 10 اکتوبر کو سماعت کی جائےگی۔
پہلے آپ اس پیٹیشن کو مختصراً سمجھ لیجیے کہ ہندو فریق کا دعویٰ کیا ہے:
ہندو سینا کا دعویٰ ہے کہ اجمیر درگاہ کے صدر دروازے کی چھت کا ڈیزائن "سرنچنا” جیسا دکھتا ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ جگہ بنیادی طور پر ایک مندر ہے، ایسے ہی مزید کئی چیزوں کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ہندو تہذیب کی علامات ہیں پھر یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر اس درگاہ کے موجودہ رنگ و روغن اور سفیدی کو کھرچ کر ہٹادیا جائے تو اس جگہ کی اصلی حقیقت سامنے آ جائے گی ۔
ہندو سینا نے عدالت میں کہا ہے کہ اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ اجمیر درگاہ پہلے سے خالی کسی اراضی پر تعمیر کی گئی ہے بلکہ تاریخی شواہد یہ کہتے ہیں کہ اس جگہ پر مہادیو اور جین مندر تھے جہاں ہندو بھکت اپنے دیوتاؤں کی پوجا پاٹ کرتے تھے، چنانچہ ہندو فریق مطالبہ کرتا ہے کہ اس متنازعہ جگہ پر شری سنکٹ موچن مہا دیو وِراجمان مندر کی ازسرنو تعمیر کی جائے۔
پہلے ان لوگوں نے اسی انداز میں بابری مسجد پر دعویٰ کیا اور بالآخر اسے رام مندر میں تبدیل کرالیا۔
پھر متھرا کی مسجد پر دعویٰ کیا اور آج بالآخر اس مسجد کے ایک حصے میں پوجا پاٹ بھی ہورہی ہے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ان دعوؤں کے ابتدائی مقدمات اور پیٹیشن کو یونہی دائر کیا گیا اور انہیں خارج بھی کیا گیا اور ایسی خبروں کا ماحول بنا بنا کر پھر ان دعوؤں کو باضابطہ مکرر پیٹیشن کے ذریعے عدالتوں نے قبول کیا، ان کے دعوؤں کو قانونی سماعت کے لیے قبول کیا گیا، پھر ان پر رفتہ رفتہ قبضہ کیا گیا، چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ آج کورٹ اس دعوے کو خارج کر دے یا مکمل طور پر قبول نہ کرے، لیکن آپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوئیے گا کہ اجمیر درگاہ کو ہم نے بچا لیا ۔ کیونکہ ہندوتوادیوں کا ہمارے مذہبی مراکز پر قبضہ کرنے کا طریقہء واردات یہی ہے پہلے چھوٹے موٹے ہندوتوا غنڈے یہ دعوے کرتے ہیں،، کورٹ توجہ نہیں دیتی لیکن نیچے ہندو سماج میں ماحول بنتا رہتا ہے یہاں تک کہ پھر وہ ہندوتوا دعویٰ، ہندو احیاء پرستی کی تحریک بن جاتا ہے۔ !
بھاجپا اور سنگھ کے عروج کے ساتھ ساتھ ہندو خیمہ ایک شرمناک قسم کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو چکا ہے اور وہ ہے مسلمانوں سے انتقام لینے کی پیاس، اور انہیں اپنے سے دوسرے درجے پر دیکھنے کی نفسیات، انہیں دنیا میں ہر اس مقام اور مسلمان سے پرابلم ہے جس سے مسلمانوں کی خودمختاری اور کسی بھی درجہ مرکزیت کا ثبوت ملتا ہے، وہ ان تمام مقامات خواہ وہ مساجد ہوں، مدارس ہوں، درگاہیں ، خانقاہیں یا تبلیغی مراکز ہوں انہیں منہدم کرنا چاہتے ہیں، یہ ان کے عروج کی شروعات ہے، ابھی وہ اپنی یہ کارروائیاں بتدریج کررہے ہیں اگر اس ہندوتوادی عروج کو استحکام مل گیا توپھر وہ یہ سب ہندوتوادی ناچ صدارتی احکامات اور آرمی اختیارات کے ذریعے جلد از جلد کر گزریں گے، اور اس ملک میں مسلمانوں کو باقاعدہ دوسرے درجے پر دھکیل دیا جائے گا ان کے عروج کی نشانیوں سمیت، ان کے عہد اقبال یا مرکزیت کی طرف اشارہ کرنے والے تمام مراکز اور اداروں کو سرنگوں کرکے انہیں بے اختیار کیا جائےگا۔ ہندوتوا کے استحکامی عروج کا مطلب یہی ہےکہ اس ملک میں نئے شودروں کو ان کا اچھوت لباس مکمل پہنا دیا جائے، آر ایس ایس کے برہمنوں کی زندگی اسی میں ہے کہ وہ ہر دور میں یہاں کے لوگوں کے لیے ایک نیا دشمن تیار رکھتے ہیں، مسلمانوں کے ہر امتیاز کو جو ان کے مذہبی اور تہذیبی شناخت کی علیحدگی کا نمائندہ ہو اسے چھین کر ان کو باضابطہ دوسرے درجے کا شہری بنانا، یہ ہندوتوا کے استحکامی عروج کا منظر ہوگا ۔ اور اگر آج جبکہ ہندوتوا غیراستحکامی عروج پر ہے اور ہم نے اسے روک لیا تو یہ صورتحال یقیناً نہیں ہوگی۔ اگر آج منصفانہ آئینی اور انسانی حقوق کی مزاحمت کرلی گئی تو قربانیاں کم دینی ہوں گی، بعد میں بھی ہماری نسلیں اس استعمار سے نجات حاصل کرلیں گی لیکن تب قربانیاں زیادہ دینی پڑیں گی ۔
اس آنے والی غلامی سے بچنے کا حل۔کیا ہے؟
اس کے لیے مسلمانوں کو سب سے پہلے سختی سے نمازوں کی پابند کرنی اور کرانی ہوگی، پھر آپسی اتحاد، پھر ایمانی نظریات، عقیدہء توحید پر ثابت قدمی، ہندو دیو مالائیت کے خلاف توحید کی حساسیت اور شعور، ہندوستانی مسلمانوں میں ایسے شعور کی آبیاری کرنا کہ کسی بھی صورت میں وہ کسی ادنی سی بھی ہندو رسم کو قبول کرنے پر ہرگز تیار نہ ہوں، پھر ہر ریاست میں صوبائی سطح پر اپنی علیحدہ سیاسی طاقت، پھر نئے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی مراکز،
اور مودی سرکار کے ہر ظالمانہ ہندوتوادی اقدام اور مسلمانوں کے خلاف قانون پر بھرپور ، مضبوط اور پُر شور احتجاج مسلسل جاری رکھنا، اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں پر احتجاج و آندولن کا تسلسل ملی زندگی کو حریت مندانہ حیات دیتا ہے، اور نسلوں میں عزت دار خودمختاری کی روحانی سانسیں منتقل ہوتی ہیں۔
اجمیر درگاہ پر ہندوؤں کے اس دعوے اور متھرا کی مسجد میں ہندوؤں کی پوجا پاٹ کےخلاف سڑکوں پر اتر کر آندولن کیا جائے، اجمیر کی درگاہ سلطان الاولیاء خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی یادگار ہے اور ہم سب کے لیے عقیدت کا سبب ہے، ہم اجمیر درگاہ کی ایک انچ زمین بھی ہندوؤں کو پوجا پاٹ کرنے کے لیے ہرگز نہیں دیں گے –