"وقف املاک پر مودی سرکار کا حملہ: مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے احتجاج ضروری”
.
.
.
.
اگر مودی سرکار پارلیمنٹ سے وقف ترمیمی بل پاس کروانے میں کامیاب ہوگئی تو اس ملک میں بڑے پیمانے پر مساجد ، مدارس ، درگاہوں، تعلیمی اور دینی و خیراتی اداروں پر سوالیہ نشان لگ جائے گا، اور جن وقف املاک کے ذریعے مساجد سمیت بےشمار دینی مراکز و اداروں کا خرچہ چلتا ہے وہ بھی محدود ہو جائیں گے،
مسلمانوں کی جانوں پر مسلسل حملوں کے بعد بالآخر مودی سرکار اور آر ایس ایس اب مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اس نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمان اپنے جانوں کے تحفظ میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ ہندوتوا نفرت انگیزی اور ماب لنچنگ کے عادی ہوچکے ہیں چنانچہ اب وہ مسلمانوں کے خلاف اپنا سب سے بڑا منصوبہ لے کر آئے ہیں ۔
مودی سرکار اسی ہفتے پارلیمنٹ میں یہ بل پاس کروانے کی کوشش کرسکتی ہے ۔
زیادہ تفصیلی بات نہیں کرتے ہوئے میرا سیدھا سوال ہےکہ ہم کیا کریں گے ؟ کیا جس طرح ہم نے کئی سارے ظالمانہ قوانین و عدالتی فیصلوں پر ” ناقابلِ برداشت ” کا مذمتی تبصرہ کیا ویسے ہی کوئی قرارداد پاس کرکے گزر جائیں گے ؟
یا کم از کم وقف املاک اور ان پر مسلمانوں کے حقوق کو بچائے رکھنے کے لیے کوئی زمینی اقدامات کیے جائیں گے ؟
ایسے غاصبانہ اور ظالمانہ اقدامات کا صرف اور صرف ایک علاج ہےکہ اس ملت کے قائدین کسانوں کی طرح ملک گیر سطح پر آندولن شروع کردیں اور جب تک مودی سرکار قانون واپس نہ لے سڑکوں پر بیٹھے رہیں، پولیس کے ظلم اور سرکاری کارروائی کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر احتجاج جاری رکھیں ۔
اگر مسلمانوں کے ہاتھوں سے وقف املاک بھی نکل گئیں تو بڑا خسارہ ہوگا، وقف املاک ہمارے آبا و اجداد نے ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیے چھوڑی ہیں تاکہ مسلمان ان کے ذریعے اپنے دینی تعلیمی و خیراتی امور انجام دیں اور ترقی کریں ایک امتیازی شناخت کے ساتھ جی سکیں ۔
ہمارے علماء نے ہی یہ بات بڑھ چڑھ کر بیان کی ہے کہ وقف املاک اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہیں اس لیے یہ معاملہ مزید سنگین ہےکہ عامۃ المسلمین کی نگاہیں بھی آپکی طرف ہیں کہ اللہ کے لیے وقف املاک کا تحفظ کرنے میں علما کا کیا رول ہوگا؟
مودی سرکار اور آر ایس ایس کو معلوم ہے کہ جب تک مسلمانوں کے ہاتھوں سے وقف املاک کے اختیارات ختم نہیں کیے جائیں گے وہ ایک امتیازی شناخت کے ساتھ بھارت میں موجود رہیں گے نیز آر ایس ایس کے برہمنوں کی نظریں وقف کی بےشمار جائیدادوں پر بہت پہلے سے ہے ہندوتوا تنظیموں کو بہت پہلے سے اس بات پر مروڑ ہےکہ وقف کے نام پر مسلمانوں کے پاس اتنی ساری اراضی و عمارات اور جائیدادیں کیوں ہیں ہمارے پاس کیوں نہیں ؟ وقف میں کئی ایک تاریخی مقامات بھی ہیں ۔
اگر مودی سرکار وقف میں گھس پیٹھ کرلیتی ہے تو سَنگھ اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک بڑے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا
مسلم قائدین کو اس ظالمانہ اور صریح غاصبانہ اقدام کے خلاف غیر معینہ مدت کے لیے آندولن شروع کرنا ہوگا، سڑکوں پر اترنا ہوگا، جب سڑکیں اور آباد ہوں گی تو ایوانِ پارلیمنٹ سمیت انصاف کے محکمے بھی آپ کو سنجیدگی سے لیں گی آپ کا اثر قبول کریں گی ورنہ مذمتی لیٹر پیڈ اور خالی خولی عدالتی پیٹیشن سے آج تک آپ نے کیا حاصل کرلیا آپ خود تجزیہ کرسکتے ہیں ۔
وقف املاک کو ہندوؤں کی ملکیت اور قبضے میں جانے سے ہر قیمت پر بچانا ہوگا