"کمانڈر اسماعیل ہانیہ کے قتل کے پیچھے چھپے ہاتھ: ایران کی جوابی کارروائی کیا حقیقت آشکار کرے گی؟”
.
.
.
.
کمانڈر اسماعیل ہانیہ کے قتل میں جو خفیہ ہاتھ ہیں وہ بہت جلد سامنے آجائیں گے اگر واقعی ایران اسرائیل پر حملہ کردے، اور یہ بھی پتا چل جائے گا کہ مسلمانوں میں سے کون کون اسلامی کمانڈر ہانیہ سے حقیقی محبت کرتا ہے _
کمانڈر اسماعیل ہانیہ کا قتل چونکہ ایران میں ہوا ہے اس لیے ایران پر تکنیکی اور اخلاقی جوابدہی ہر حال میں عائد ہوتی ہے ایران اس جوابدہی سے بچ نہیں سکتا ہے، البتہ ایران اپنے ملک میں عالم اسلام پر ہونے والے اتنے بڑے حملے سے خود کو اسی صورت میں بری کرسکتا ہے جبکہ وہ اس کے جواب میں انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کردے، واضح رہے کہ حملہ رسمی کارروائی یا پٹاخے چھوڑنے جیسا نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ایران اسرائیل پر عبرتناک کارروائی کرے۔ اسی صورت میں یہ واضح ہوگا کہ ایران بالارادہ اور براہ راست کمانڈر کے قتل میں ملوث نہیں ہے،
*ایران کی طرف سے اسرائیل پر حملے کی صورت میں ایک اور حقیقت دو دو چار کی طرح واضح ہو جائے گی کہ عربی ممالک میں سے کون کون سے غدار حکمران شہید اسماعیل ہانیہ کے قتل میں شریک تھے وہ یوں کہ جب ایران اسرائیل پر حملہ کرے گا تو ایران کے داغے گئے میزائل و راکٹوں کو اگر اپنی فضائی حدود کے ذریعے سعودیہ، مصر ، امارات و اردن اسرائیل پر نازل ہوکر تباہی پھیلانے سے پہلے ہی روک دیتے ہیں تو پھر یہ حقیقت واشگاف ہو جائے گی کہ اسلام کے شیر دِل کمانڈر کے قتل میں خفیہ ہاتھ کس کے تھے؟*
*اور اگر سعودیہ، مصر، اردن اور امارات کمانڈر ہانیہ کی انتقامی کارروائی کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر اس کے بعد مسلم امت اور اس کے علماء و اعیان کو اتنی ہی شدت سے ان ممالک کے خلاف کھل کر اعلان حق کرنا ہوگا جتنی شدت سے وہ ایران کے خلاف بیان دیتے ہیں، ہم خود ایران کے خلاف ہیں لیکن اگر ایران کے میزائلوں سے اسرائیل کو سنی ممالک نے بچایا توپھر ہم پر فرض ہوگا کہ ان غداروں کے خلاف امت مسلمہ میں بیداری عام کریں اور طاغوت کے ان چیلوں کی اصلیت بیان کریں،*
اور مجھ سمیت ہمارے جن علماء و دانشوران نے کمانڈر کے قتل کے معاملے میں ایران کے خلاف کھل کر لکھا ہے ہم سب پر فرض ہوگا کہ کمانڈر کے ساتھ وفاداری ثابت کرتے ہوئے اس کے خفیہ قاتلوں کے خلاف بھی لکھیں ورنہ یہ ساری غیرت اللہ کے حضور مردود ٹھہرے گی ، کہ ہم ایرانی رافضیت کے خلاف تو شیر بن جائیں لیکن جب سنی غداروں کی کھلی ہوئی اسرائیل غلامی سامنے آئے تو بھیگی بلی بن جائیں ۔ صرف اس لیے کہ سنی ممالک بعض لوگوں کو وی۔آئی۔پی حج و عمرہ اور سعودیہ کی سفارتی مراعات دلواتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ بہت ہی منحوس اور نچلی بات ہوگی اور خاموش رہنے والوں کی حق گوئی کو طشت از بام کردے گی۔
ایرانی رافضی ہوں یا اسرائیل و امریکا کے سعودی،اماراتی، مصری و اردنی غلام سب کے حق میں اسلامی عدل وانصاف کا ترازو یکساں ہونا چاہیے، مسلمانوں کی ذمہ دار شخصیات نے سنی دنیا کے ان غدار حکمرانوں کے خلاف اگر بہت پہلے ایمانی غیرت کا مظاہرہ کیا ہوتا تو آج عالم اسلام میں بیداری اور حقیقت پسندی کی لہر ہوتی، ہمارے جانبازوں کو دشمن لقمہءتر نہیں سمجھتا۔
اس لیے میں ہمارے علماء و دانشوران سے امید رکھتا ہوں کہ اگر ایران نے اس بار واقعی خوامخواہ کی دھمکیوں اور گیدڑ بھپکیوں سے آگے بڑھ کر کمانڈر کے انتقام کے نام پر کوئی کارروائی کی اور اسرائیل کو بچانے کے لیے سنی مسلم دنیا کے یہ حکمران سامنے آئے تو وہ ایمانی غیرت کا مظاہرہ کریں گے علاوہ ازیں یہی سمجھا جائے گا کہ مرحوم کمانڈر کے لیے ان کی غیرت و حمیت صرف دکھاوا تھی۔