دارالعلوم دیوبند پر بلڈوزر چلانے کا مطالبہ کرنے والوں پر کارروائی کیوں نہیں ؟
.
.
.
.
.
..
جس کی عادت نفرت کا پرچار کرنے ، اور فرقہ پرستی پھیلا کر ملک کے مختلف فرقوں ، با لخصوص ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی پڑ جائے ، بھلا وہ کبھی محبت کی ، بھائی چارے کی اور امن و امان کی بات کر سکتا ہے ! قطعی نہیں ! اسی لیے جب گستاخ رسول کی زبان سے یہ الٹی میٹم نکلا کہ ایک مہینے کے اندر دارالعلوم دیو بند پر بلڈوزر چلا دیا جائے ورنہ ہندو سماج اس نفرت اور دہشت گردی کے مرکز کو منہدم کر دے گا ۔ یہ الٹی میٹم اتر پردیش (یوپی) کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو دیا گیا ہے ، اور یہ بھی دھمکی دی گئی ہے کہ اس سلسلے میں ایک مہا پنچایت بھی کی جائے گی ۔ یہ یتی نرسنگها نند وہی ہے جس نے ملعون وسیم رضوی کو ہندو بنایا تھا ۔ یہ وہی ہے جو بار بار مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکیاں دیتا رہا ہے ، لیکن اس کے خلاف کوئی سخت کار روائی نہیں کی جاتی ! یہ اسلامو فوبیا کا عادی قصور وار ہے ، لیکن کوئی ایجنسی، کوئی سرکاری ادارہ اس کے خلاف کارروائی کی ہدایت نہیں دیتا ! دار العلوم دیو بند کے ایک پندرہ سال پرانے فتوی کو بنیاد بنا کر جو ہنگامہ کیا جا رہا ہے ، یا جو لوگ ہنگامہ کر رہے ہیں وہ بتائیں کہ غازی آباد ضلع کے ڈاسنہ مندر کے مہنت یتی نرسنگھا نند سرسوتی نے اپریل ۲۰۲۲ ء میں نئی دہلی کی ایک ہندو مہا پنچائت میں مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا جو نعرہ بلند کیا تھا کیا وہ اسلامو فوبیا نہیں ہے ؟ کیا یہ کہنا کہ اگر ملک میں مسلمان وزیراعظم آگیا تو آئندہ کے ۲۰ برسوں میں ۵۰ فیصد ہند و اپنا دھرم تبدیل کرلیں گے اور آئندہ کے ۲۰ برسوں میں ۴۰ فیصد قتل کر دیئے جائیں گے ، مسلمانوں کے تعلق سے ساری ہندو آبادی کو خوف میں مبتلا کرنا نہیں ہے ؟ یہی تو اسلامو فوبیا ہے ، یہی تو نفرت پھیلانا ہے ، یہی تو دو فرقوں کے بیچ پھوٹ ڈالنا ہے ، یہی تو ہیٹ اسکیچ ہے ۔ کیا یہ کہہ کر اکسانا مرد بنو لوگوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر آمادہ کرنا نہیں ہے ؟ اور کیا اسے اسلامو فوبیا اور ہیٹ اسکیچ نہیں کہا جائے گا ؟ یہ وہی پیتی نرسنگھا نند ہے جس نے دسمبر ۲۰۲۱، میں ہری دوار میں دھرم سنسہ کا انعقاد کیا تھا ۔ وہ دھرم سنسد جس میں مسلمانوں کی نسل کشی کا نعرہ لگایا گیا تھا ۔ لوگوں کو خوب یاد ہو گا کہ ہری دوار میں ، ۱ تا ۱۹ دسمبر ۲۰۲۱، کو جو دھرم سنسد ہوا تھا اس میں بیتی نرسنگھا نند نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر جنگ چھیڑ دی جائے تا کہ ۲۰۲۹ء میں کوئی مسلمان اس ملک کا وزیر اعظم نہ بن سکے ۔ اس دھرم سنسد میں پٹنہ کے دھرم داس مہاراج ، سمبھوی دھام کے آنند سروپ مہاراج اور ہندو مہاسبھا کی پوجا شکن پانڈے نے انتہائی زہریلی تقریریں کی تھیں ۔ یہ وہی دھرم سنسد تھا جس میں یتی نرسنگھا نند نے ہندو نوجوانوں سے بھنڈران والا اور پر بھا کرن بننے کے لیے کہا تھا ۔
پولس نے اس مہنت پر ایف آئی آر درج کی ہے ، اسے ملزم بنایا ہے ، بس اور کچھ نہیں کیا ، یہ مزید زہر پھیلانے کے لیے آزاد ہے ۔ معاملہ درج کرنا اہم نہیں ہے ، معاملہ درج کیے جانے کے بعد کارروائی کیا جانا اہم ہے ۔ اگر ہری دوار معاملہ میں کارروائی کی جاتی تو آج اس زہر ملیے مہنت کی زبان نہ کھلتی ، اور یہ دارالعلوم دیو بند کو نشانہ بنا کر ملک بھر میں نفرت کا بازار گرم نہیں کرتا ۔
عدالتوں کو اس مہنت کی زہریلی تقریروں اور بیانوں کا از خود نوٹس لینا چاہیے ، اس کے خلاف کارروائی کا حکم دینا چاہیے ، کیونکہ یہ ملک میں افراتفری پھیلانے کا ذمہ دار ہے ۔ پندرہ سال پرانے فتوی کی بنیاد پر حرکت میں آنے والے سرکاری اہلکاران اس مہنت کی بس دو سے تین سال قبل کی ہیٹ اسپیچ کو سنے اور کارروائی کرے ، یہ ملک میں امن و امان کے لیے زیادہ مفید ہو گا
.
.
.
.
.