دارالعلوم دیوبند تو بس ایک بہانہ ہے اصل مقصد تو…..
.
.
.
.
دارالعلوم دیو بند کو ایک فتوی پر نوٹس دیا گیا ہے ۔ نوٹس کا دینا اور دارالعلوم دیو بند تو ایک بہانہ ہے اصل میں ساری مسلم قوم ، اس کے ادارے اور اس کے آثار نشانے پر ہیں ۔ اور ذرا ذرا سی بات پر نوٹس ، پولس ، کار روائی ، تلاشیاں ، سروے اور نہ جانے کیا کیا نہیں کیا جا رہا ہے ! جس فتوے پر دارالعلوم دیوبند کو نوٹس جاری کیا گیا ہے وہ پرانا ہے ! کوئی ایک دو یا تین سال نہیں پندرہ سال پرانا فتوی افتویٰ غزوہ ہند سے متعلق ہے ۔ صحاح ستہ کی کتاب ‘سنن النسائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ غزوہ ہند
میں مرنے والے عظیم قربانیاں دینے والے ہوں گے ۔ مذکورہ حدیث حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے
اس فتوی پر نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس یعنی بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے سہارنپور کی انتظامیہ کو کارروائی کی تحریری ہدایت دی ہے ۔ الزام ہے کہ دارالعلوم دیو بند بچوں کو ملک مخالف تعلیم دے رہا ہے ۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس پر سوائے ہنسنے کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ دارالعلوم دیو بند کی پوری تاریخ لوگوں کے سامنے ہے ، چاہے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا معاملہ رہا ہو یا ملک کو تقسیم سے محفوظ رکھنے کی کوششیں رہی ہوں ، دارالعلوم دیو بند کے علماء اور فضلا پیش پیش رہے ہیں ۔ یہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی کوششیں ہی تھیں کہ مغربی اتر پردیش سے بٹوارے میں مسلمان اجڑے نہیں، انہوں نے بڑھ چڑھ کر لوگوں کو سمجھایا کہ بٹوارے کے بعد حالات کیسے اور کس طرح سے ابتر ہو سکتے ہیں ۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ میں انہیں اور مولانا ابوالکلام آزاد کو تقسیم اور بٹوارے کے خلاف بولتے وقت تنگ کیا گیا ۔ حضرت مدنی دارالعلوم دیو بند ہی کے شیخ الحدیث تھے اور اب اسی دارالعلوم دیو بند پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ بچوں کو ملک مخالف تعلیم دے رہا ہے ! اس الزام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں وہ بھگوا دھاری عناصر آگے آگے ہیں جن کے اجداد انگریزوں کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہتے تھے ، جو انگریزوں کی غلامی کو ملک کی آزادی سے بہتر سمجھتے تھے ۔ حکم نامہ سخت کارروائی کا ہے ۔ کیا مطلب ہے سخت کارروائی کا ؟ کیا دارالعلوم دیوبند پر تالا لگانا ہے ؟ خیر یہ ایک خواب ہے جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا ، لیکن اس بہانے دارالعلوم دیو بند علماء اور فضلائے کرام اور سارے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم تیز کی جائے گی اور ان پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے جائیں گے ، بہت ممکن ہے کہ کہا جائے احادیث کی کتا بیں پڑھانا بند کر دیا جائے ۔ تو کیا یہ سب قبول ہوگا ؟
یاد رہے کہ یہ مہم ایک دارالعلوم دیوبند کو ہی نہیں تمام مدارس کو اپنی پیٹ میں لے لے گی ، اور تمام مسلمانوں کے مدر سے اس سے متاثر ہوں گے ۔ مدرسوں کے ذمے داران کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ، اور دارالعلوم دیو بند کے نوٹس کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ یہ سوال دریافت کیا جانا ضروری ہے کہ بھلا پندرہ سال پرانے کسی فتوی کو کھوج کر سامنے لانے اور اس کی بنیاد پر نوٹس دینے کی ایسی کیا ضرورت پیش آگئی ؟ سوال یہ بھی کیا جانا چاہیے کہ کیا گذشتہ پندرہ سالوں کے دوران دارالعلوم دیو بند کے کسی فارغ کو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ہے ؟ یقیناً اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا ، لیکن ملک کے دوسرے اداروں سے فارغ نہ جانے کتنے لوگ ملک بیچنے کے الزام میں پکڑے گئے ہیں یا فرار ہیں ، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟
.
.
.
.